Maktaba Wahhabi

162 - 358
میں زنا کی سزا ہی بیان کی گئی ہے، بلکہ اس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے۔[1] جس کی وجہ سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو پیشہ ور طوائفیں ہیں، ان کی اس میں سزا بیان کی گئی ہے۔ عام بدکار عورتوں کی یہ سزا نہیں ہے۔ گویا پہلے صاحب نے اُسے بالکل عام کر دیا اور دوسرے صاحب نے اسے بالکل خاص کر دیا۔[2] علاوہ ازیں پہلے صاحب نے اس آیت کو محکم (غیر منسوخ) قرار دیا اور دوسرے صاحب نے اسے ایک عبوری حکم باور کرایا، جو بعد میں آیت: {اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا} سے منسوخ ہوگیا۔ پھر ان صاحب نے مزید ظلم یہ ڈھایا کہ محض اپنے نقطۂ نظر کے اثبات کے لیے سیدنا ماعز رضی اللہ عنہ اور سیدہ غامدیہ رضی اللہ عنہا جیسے پاک باز صحابی و صحابیہ کو غنڈہ، پیشہ ور بدمعاش اور طوائف باور کرایا۔ (نعوذ باللّٰه من ھذہ الھذیانات والخرافات) دراں حالیکہ وہ دونوں نہایت نیک اور مخلص مسلمان تھے، جن سے بہ تقاضائے بشریت غلطی کا صدور ہوگیا تھا اور جس نے انھیں بے قرار اور مضطرب کر دیا تھا۔ ٭ پھر اسی پر ہی بس نہیں کی گئی، یہ دعویٰ بھی ان صاحب نے کیا کہ قرآن و حدیث میں کہیں سرے سے ثبوتِ زنا کے لیے چار گواہوں کا ہی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے اثباتِ زنا کے لیے چار گواہوں کا نصاب ہی غیر ضروری ہے۔ زنا تو ایک گواہ، بلکہ ایک بچے کی شہادت، بلکہ بغیر کسی شہادت کے قرائن کی بنیاد پر بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ٭ اسی طرح موصوف نے حد اور تعزیر کے مابین فرق کو بھی تسلیم کرنے سے
Flag Counter