Maktaba Wahhabi

21 - 358
ان امور و مسائل کو ملاحظہ کرنے والا ہر شخص اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ ان کی تہہ میں انکارِ حدیث کا نظریہ اور اپنی تشریح و تعبیر کو سنتِ نبوی پر مقدم کرنے کا فتنہ ہی کار فرما ہے۔ ان افکار کے حامل افراد کو جب کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی شاذ آرا اور انفرادی روش کو چھوڑ کر جمہور امت اور متفقہ عقائد ہی کو اختیار کرے تو وہ اپنی آرا کی تائید میں بعض شاذ اقوال کا سہارا لے کر بڑے شاداں و فرحاں ہوتے ہیں، حالاں کہ ایسی مردود آرا سے استشہاد ہی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ان لوگوں کا دامن قوتِ دلیل سے خالی اور عقل و دانش سے عاری ہے۔ حافظ عثمان بن سعید دارمی (وفات: ۲۸۰ھ) فرماتے ہیں: ’’إِنَّ الَّذِيْ یُریدُ الشُّذُوذَ عَنِ الْحَقِّ یَتّبعُ الشّاذَّ من قَول العلماء، ویتعلقُ بِزَلّاتِھم، والذي یَؤُمّ الحَقّ فِي نَفسِہ یَتّبع المَشْھورَ من قَول جَماعَتِھِم، وَیَنقَلِبُ مَع جَمْھُورِھِم، فَھَاتانِ آیَتانِ بَیِّنتانِ یُستدَلُّ بِھمَا علی اتّباعِ الرّجُلِ وَابْتِداعِہ‘‘ (الرد علی الجھمیۃ، ص: ۶۸) ’’جو شخص حق سے روگردانی کرنا چاہتا ہے، وہ علما کے اقوال میں سے شاذ قول اختیار کرتا ہے اور ان کی غلطی کو حجت بنا لیتا ہے، اور جو شخص حق کا طلب گار ہوتا ہے، وہ قولِ مشہور اختیار کرتا ہے اور جمہور علما کا ساتھ دیتا ہے۔ یہ دو واضح نشانیاں ہیں، جن کی بنا پر کسی بدعتی اور متبعِ سنت کو پہچانا جا سکتا ہے۔‘‘ ان دو علامات کی روشنی میں نظر دوڑائیے کہ یہ گروہ کہاں کھڑا اور کس شَے کی اتباع کی دعوت دیتا ہے: جمہور امت کے عقائد کی یا اپنے خود ساختہ افکار کی؟
Flag Counter