عورت کا حصۂ میراث مرد کے حصۂ میراث سے نصف چلا آرہا ہے۔ نصف دیت میں تو سرے سے عورت کی کوئی حق تلفی ہی نہیں ہے۔ عورت کے قتل کر دیے جانے کی صورت میں جو دیت جن ورثا کو ملے گی، وہ اس کے والدین، بھائی یا خاوند وغیرہ ہی ہوں گے، عورت کا اس میں کیا نقصان ہے؟ یا اس کی بے حرمتی کا اس میں کیا پہلو ہے؟ اگر عورتوں کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں تو مسئلۂ میراث کی وجہ سے ہو سکتے ہیں، مسئلہ دیت کی وجہ سے نہیں۔ الحمد ﷲ! مسلمان عورتوں کے اندر مسئلۂ میراث کی وجہ سے آج تک اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے، کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس میں جو حکمت و مصلحت ہے، وہ بالکل صحیح ہے۔ اب اگر کسی ’’انگریزی خواں‘‘ عورت کے اندر ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں تو جو جواب مسئلۂ میراث کے سلسلے میں دیا جائے گا، نصف دیت کے سلسلے میں پیدا ہونے والے شبہے کا جواب بھی وہی ہو گا۔ |
Book Name | فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ |
Writer | حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ |
Publisher | دار أبي الطیب للنشر والتوزیع |
Publish Year | جولائی 2015ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 358 |
Introduction |