Maktaba Wahhabi

304 - 358
بھی واضح ہے، جو خود عمار صاحب کو بھی تسلیم ہے۔ پھر اس مردانہ حق کو مرد سے چھین کر عورت کو کس طرح تفویض کیا جا سکتا ہے؟ اور اﷲ کی اس نہایت حکیمانہ تقسیم کو بدلنے کا حق علما و فقہا کو کس طرح دیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مرد محکوم اور عورت حاکم بن جائے؟ پھر تو قرآن کی آیات {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ} [النساء: ۳۴] اور {وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ} [البقرۃ: ۲۲۸] کو کم از کم اس مسئلے میں ’’النساء قوامات علی الرجال‘‘ اور ’’وللنساء علی الرجال درجۃ‘‘ میں تبدیل کرنا پڑے گا!! اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ علما و فقہا کو اجتہاد کا حق حاصل ہے اور ان کے اجتہادی مسئلے کو شریعت سازی نہیں کہا جاتا، بلکہ وہ شرعی حکم ہی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن اجتہاد کی اجازت یا حق منصوص مسائل میں ہرگز نہیں ہے۔ امرِ منصوص میں اجتہاد یا اس سے انحراف، سراسر گمراہی اور شریعت سازی ہی ہے، جس کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ بہرحال ہمارا موقف یہ ہے، جو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ نہ نکاح کے وقت اور نہ کسی اور موقعے پر۔ اگر کسی نے یہ حقِ طلاق عورت کو دے دیا اور عورت نے اسے استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے دی تو یہ طلاق نہیں ہوگی۔ طلاق کا حق صرف مرد کو حاصل ہے۔ یہ حق اﷲ نے صرف مرد ہی کو عطا کیا ہے، اسے پوری امت مل کر بھی عورت کی طرف منتقل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ بنابریں عمار صاحب کا اپنے آخری پیرے میں یہ کہنا: ’’قانونی طور پر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر
Flag Counter