لکھ کر رکھا ہوا تھا جس کی گاہے بگاہے وہ تہذیب (editing) بھی کرتے رہتے تھے۔ اس کاکہنا یہ ہے کہ بعض اوقات محمد صلی اللہ علیہ وسلم نازل شدہ وحی کو صحیح طور پر یاد نہیں رکھ پاتے تھے یا بعض آیات کے تفصیلی مضامین کو وہ اختصار سے بیان کرنا چاہتے تھے جس کے لیے وہ قرآن مجید کو ایڈٹ کرتے رہتے تھے۔اس کے نزدیک ’سبعۃ أحرف‘ یعنی قراء ات کے اختلافات کی حقیقت بھی یہی ہے۔ یہ قرآن مجید کو آپ کی ذاتی تصنیف قرار دیتا ہے۔ جان برٹن کا کہنا یہ ہے کہ متاخرین مسلمان اہل علم نے یہ نقطہ نظر عام کیا ہے کہ قرآن مجید کی تدوین و تالیف صحابہ رضی اللہ عنہم نے کی ہے اور اس نظریہ کی تخلیق کی ضرورت انہیں اس لیے محسوس ہوئی کہ انہیں اپنے بعض فقہی نقطہ ہائے نظر کے لیے کوئی دلیل چاہیے تھی،مثلاً رجم کی حد کا مسئلہ۔ وہ لکھتا ہے: The Kernel of our problem is that the majority of the madahib are unanimously of the view that in certain circumstances, the penality for adultery is death by stoning. Now, we know that this penality is not only nowhere mentioned in our texts of the Quran, it is totally incompatible with the penality that is mentioned. 19 جب فقہاء رجم کی سزا کا اثبات قرآن مجید سے نہ کر پائے تو انہوں نے نسخ کا تصور گھڑا اور کہا کہ رجم کی آیات قرآن میں پہلے موجود تھیں جبکہ بعد میں ان کی تلاوت منسوخ ہوگئی۔ فقہاء نے اپنے اس نسخ کے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید کے کتابی صورت میں ہونے کا انکار کر دیا۔ اس کے الفاظ ہیں: The exclusion of the Prophet from the collection of the Quran was a prime desideratum of the Usulis wrestling with the serious problems generated by some of their own theoratical positions. 20 اب مسلمان فقہاء کے لیے چونکہ قرآن مجید میں اضافہ تو ممکن نہ تھا لیکن یہ ان کے لیے آسان تھا کہ وہ اپنی اجتہادی آراء کو یہ بنیاد فراہم کر دیں کہ ان آراء کے دلائل کو بیان کرنی والی آیات ’منسوخ التلاوۃ‘ ہیں لہٰذا انہوں نے قرآن مجید کی جمع وتدوین کی |
Book Name | اسلام اور مستشرقین |
Writer | ڈاکٹر حافظ محمد زبیر |
Publisher | مکتبہ رحمت للعالمین |
Publish Year | 2014 |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 166 |
Introduction | مقدمہ موضوع کا تعارف ماڈرن یورپ میں احیائے علوم اور نشاۃ ثانیہ(Enlightenment and Renaissance) کی تحریک کے نتیجے میں علوم جدید کی تدوین عمل میں آئی۔ اہل یورپ کی ایک جماعت نے جدید سائنسی علوم سے ہٹ کر علوم اسلامیہ اور مشرقی فنون کو اپنی تحقیقات کا مرکز بنایا اور اسی میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ اس ریسرچ کے نتیجے میں پچھلی دو صدیوں میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور دیگر معروف یورپی زبانوں میں اسلام کا ایک ایسا جدید ورژن مدون ہو کر ہمارے سامنے آیا ہے جسے اسلام کی یورپین تعبیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اہل یورپ کی تحقیق کا جہاں دنیائے اسلام کو کچھ فائدہ ہوا کہ اسلامی مخطوطات (Manuscripts) کا ایک گراں قدر ذخیرہ اشاعت کے بعد لائبریروں سے نکل کر اہل علم کے ہاتھوں میں پہنچ گیا تو وہاں اس سے پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ یہودی، عیسائی اور لامذہب مغربی پروفیسروں کی ایک جماعت نے اسلام، قرآن مجید، پیغمبر اسلام، اسلامی تہذیب وتمدن اور علوم اسلامیہ میں تشکیک وشبہات پیدا کرنے کی ایک تحریک برپا کرتے ہوئے اہل اسلام کے خلاف ایک فکری جنگ (Intellectual War) کا آغاز کر دیا۔ سابقہ لٹریچر کا تعارف اہل مغرب کی اس منفی تنقید کے ردعمل میں مسلمانوں کی ایک جماعت نے دین اسلام کا دفاع کیا اور مستشرقین کی زہریلی نقد کے جواب میں مستقل کتب، مقالات، رسائل اور تحقیقی مضامین شائع کیے۔ ذیل کی کتاب بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ برصغیر پاک وہند میں استشراق کے حوالے سے ہونے والے نمایاں کام میں دار المصنفین، اعظم گڑھ کا ۱۹۸۲ء میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار ہے کہ جس میں پڑھے گئے مقالہ جات ’’اسلام اور مستشرقین‘‘ کے نام سے شائع کیے گئے۔ یہ کتاب ۷ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس کتاب میں سیمینار کے مقالہ جات کے علاوہ علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ اور سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کی بھی علمی تحریروں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ عربی کتب کو بھی اردو میں منتقل کیا گیا ہے جن میں نجیب العقیقی کی کتاب ’’الاستشراق والمستشرقون: ما لهم وماعلیهم‘‘ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے ’’استشراق اور مستشرقین: ایک تاریخی وتنقیدی مطالعہ‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ ایک اور عربی کتاب ’’مناھج المستشرقین فی الدراسات العربیۃ الإسلامیۃ‘‘ کا ترجمہ ڈاکٹر ثناء اللہ ندوی نے ’’علوم اسلامیہ اور مستشرقین: منہاجیاتی تجزیہ اور تنقید‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ تالیف کا پس منظر اور مقصد راقم کو یونیورسٹی آف سرگودھا میں ایم فل علوم اسلامیہ کے طلباء کو ’اسلام اور مستشرقین‘ کے نام سے ایک کورس پڑھانے کا اتفاق ہوا تو اس وقت مجوزہ کورس کے لیے ایک ریفرنس بک کی ضرورت کا شدید احساس پیدا ہوا۔ پس اس وقت سے اس موضوع پر مواد جمع کرنا شروع کیا تو ایک کتاب کی صورت بن گئی۔ اس مختصر سی کتاب کے مرتب کرنے کا ہر گز یہ مقصد نہیں ہے کہ جدید استشراق کی دو سو سالہ تحریک کے جملہ اعتراضات اور شبہات کا جواب دیا جائے۔ ایسا کام تو اہل علم کی ایک جماعت کسی انسائیکلوپیڈیا کے ذریعے ہی کر سکتی ہے۔ اس کتاب میں علوم اسلامیہ کی بڑی شاخوں مثلاً قرآنیات، علوم حدیث، سیرت وتاریخ اور فقہ وقانون اسلامی میں نمایاں مستشرقین کے حالات زندگی اور ان کے اہم نظریات کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض مستشرقین کے منہج کی غلطی اور کجی کو واضح کرنے کے ان کے بعض شبہات کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اور اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے کہ ہر نامور مستشرق کے اعتراضات کے جواب میں عالم اسلام میں لکھی جانے والی کتب کا تعارف بھی کسی قدر شامل ہو جائے۔ کتاب کا اصل مقصد علوم اسلامیہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباء میں اس موضوع کے حوالہ سے تحقیق کے میدان، مواقع اور گنجائش کا تعارف پیدا کرنا ہے۔ منہج بحث وتحقیق مستشرقین کی فکر کا تجزیہ ممکن حد تک ان کی اپنی تحریروں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اگر کسی مستشرق کی تحریر انگریزی کے علاوہ کسی دوسری یورپی زبان میں تھی تو اس کے انگریزی یا عربی ترجمے سے اقتباسات نقل کیے گئے ہیں۔ مستشرقین کے افکار پر نقد کرتے ہوئے علوم اسلامیہ کے بنیادی مصادر کی طرف رجوع کیا گیا ہے۔ حوالہ جات کے درج کرنے میں ’دی شکاگو مینوئل آف اسٹائل‘ (The Chicago Manual of Style) سے رہنمائی لی گئی ہے اور انہیں ہر باب کے آخر میں درج کیا گیا ہے۔ جن مستشرقین کے نام اردو زبان میں جس تلفظ کے ساتھ رائج ہو چکے، انہیں ویسے ہی درج کیا گیا ہے۔ اور جن مستشرقین کے نام اردو زبان میں رائج نہیں ہیں، ہم نے ان کا تلفظ گوگل ٹرانسلیشن سے اردو میں منتقل کیا ہے اور اس میں اس مستشرق کی متعلقہ قومیت اور زبان کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔ مثلاً اگر کوئی نام فرانسیسی یا جرمن ہے تو اس کے نام کی ادائیگی انگریزی کی بجائے اس کی اپنی زبان کے تلفظ سے اردو میں منتقل کی گئی ہے۔ اسی طرح ہر مستشرق یا شخصیت کے پہلی مرتبہ تذکرہ کے وقت اس کی تاریخ پیدائش اور وفات کے درج کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اقتباسات میں بڑی بریکٹ ’’[ ]‘‘ میں جو عبارت ہے، وہ مصنف کی طرف سے اضافہ ہے اور اِس کا مقصود قارئین کے لیے اقتباس کی تفہیم کو آسان بنانا ہے جبکہ چھوٹی بریکٹ ’’( )‘‘ میں جو عبارت ہے وہ اقتباس ہی کا حصہ ہے۔ اظہارِ تشکر میں ریکٹر کامساٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی محترم جناب پروفیسر ڈاکٹر ایس ایم جنید زیدی، ڈائریکٹر کامساٹس لاہور کیمپس جناب پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد بودلہ اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ محترمہ ڈاکٹر فلذہ وسیم کا خصوصی طور شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے فیکلٹی کو انسٹی ٹیوٹ میں بحث و تحقیق کا ایساماحول، سہولیات اور تعاون فراہم کیا ہوا ہے کہ جس کے سبب یہ کتاب اپنے تکمیلی مراحل کو پہنچ سکی۔ علاوہ ازیں میں اپنی اہلیہ محترمہ کا بھی خصوصی طور شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے اِس کتاب کی تیاری میں تفریغِ اوقات کے سلسلے میں راقم سے بہت تعاون فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اِن سب کے تعاون کو قبول فرمائے۔ آمین! ڈاکٹر حافظ محمد زبیر (ابو الحسن علوی) |