Maktaba Wahhabi

109 - 169
تقریباًلازم و ملزوم ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن میں کئی جگہ شرک کے لیے ظلم اور کفار کے لیے ظالمین کے الفاظ آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عادل ہیں اور ظلم کسی صورت برداشت نہیں کرتے ۔یہی وجہ ہے کہ ا گر ظلم مسلمان بھی کرے تو اُس سے بھی لڑائی ہو گی، جیسا کہ ارشاد باری ہے : ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْاۖبَیْنَہُمَافَاِن بَغَتْ اِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہ ۚ﴾(الحجرات: ۹) ’’اور اگر اہلِ ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کرواؤ اور اگر[صلح کے بعد] اُن میں ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو تم سب اُس سے قتال کرو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔‘‘ اِسی طرح اگر کافر،ظالم نہ ہو تو اُس کے ساتھ لڑائی نہیں ہو گی بلکہ ایسے کافروں کے ساتھ حسن سلوک بھی جائز ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ ۚاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ﴾(الممتحنۃ: ۸) ’’اللہ تعالیٰ تمہیں اُن کافروں سے حسن سلوک یا انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا کہ جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں قتال نہیں کیا اور نہ ہی تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ لہٰذا جہاد وقتال صرف اُن کفار اور مشرکین سے ہے جوکہ ظلم کے مرتکب ہوں ۔ اب ظلم کئی طرح کا ہوتاہے۔ ایک ظلم وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی جان سے ہوتا ہے جیسا کسی شخص کا کافر یا مشرک ہونابھی ایک ظلم ہے۔ لیکن ایسا ظلم جو کہ کسی انسان کے اپنے نفس تک محدود رہے اور متعدی نہ ہو تو اِس ظلم کے خلاف جہاد وقتال نہیں ہے جیساکہ یہود و نصاری کے صریح کفر و شرک کے باوجود اللہ نے اُنہیں اسلامی ریاست کے شہری کے طور زندگی بسر کرنے کی اجازت دی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَلاَ یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰب حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ
Flag Counter