Maktaba Wahhabi

110 - 169
عَنْ یَّد وَّہُمْ صَاغِرُوْنَ﴾(التوبۃ: ۲۹) ’’تم اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں سے قتال کرو جو کہ اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور اُس کو حرام نہیں ٹھہراتے کہ جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرایا ہو اور دینِ حق کو بطور دین اختیار نہیں کرتے، یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھوں سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔‘‘ لیکن ایسا ظلم جو متعدی(transitive)ہو،یعنی جس کے اثرات صرف انسان کی اپنی ذات تک محدودنہ ہوں بلکہ عوام الناس بھی اُس کے ظلم سے متاثر ہو رہے ہوں تو ایسے ظلم کے خلاف جہاد وقتال ہو گا۔ کتاب و سنت کی نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک کافر یا مشرک کا اقتدار اللہ تعالیٰ کبھی بھی برداشت نہیں کرتے، کیونکہ جہاں بھی کافریا مشرک کی حکومت ہو گی وہاں ظلم متعدی ہو گا اور عوام الناس اِس ظلم سے متاثر ہوں گے ،اِس لیے اہلِ کتاب کے انفرادی کفر وشرک کو توبرداشت کیا گیا ہے لیکن مذکورہ بالاآیت میں اُن کی ذلت و رسوائی اور اقتدار کے خاتمے کو قتال کی غایت وانتہا قرار دیا گیا ہے ۔ ایک اورمقام پر اللہ تعالیٰ نے فتنے کے خاتمے اور اطاعت کا صرف اللہ ہی کے لیے ہو جانے کو قتال کا منتہائے مقصود بیان کیا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ﴾(الأنفال: ۳۹) ’’اور اُن [مشرکین] سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین(اطاعت)کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘ اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کفروشرک کی حکومت واقتدار کو پسند نہیں کرتے، کیونکہ ایسی حکومت میں ہمیشہ ظلم ہوتا ہے لہٰذا ایسے ظالمانہ اقتدار کے خاتمہ کے لیے جہاد وقتال کا حکم دیا جا رہا ہے۔اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی اور مقامات پر بھی ایسے کفار سے قتال کا حکم دیا ہے جن کا ظلم متعدی ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا لَکُمْ لاَتُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا
Flag Counter