Maktaba Wahhabi

122 - 169
مجھے آپ کے ساتھ حکومت میں شریک کیا گیا ہے۔ [آپ کے بعد] نصف زمین پر ہماری حکومت ہو گی اور نصف پر قریش کی ہو گی۔‘‘ خان صاحب نے اُس کے حکومت واقتدار میں شراکت کے اِس دعویٰ کی یہ تاویل کی کہ اُس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں شراکت کا دعویٰ کیا تھا،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کے متوازی(parallel)اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اِس دعوائے نبوت کی بنیاد پر ہی اقتدار میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں شراکت کا دعویدار تھا۔ جہاں تک اسود العنسی کے دعوائے نبوت کا معاملہ ہے تو اِس بارے میں کئی ایک مستند روایات میں منقول ہے کہ یمامہ سے تعلق رکھنے والے معروف تابعی ابو مسلم خولانی رحمہ اللہ سے اسود العنسی نے سوال کیا تھا: ((أتشھد أنی رسول اللّٰہ؟ قال لا، قال أتشھد أن محمدا رسول اللّٰہ، قال نعم))(صحیح ابن حبان: ۲؍۳۳۹۔۳۴۰) ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں [اسود العنسی] اللہ کا رسول ہوں؟ تو اُنہوں نے کہا: نہیں۔ اُس نے کہا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کے رسول ہیں۔ تو اُنہوں نے کہا: ہاں!،، بعد میں اسود العنسی نے یہ مطالبہ نہ پورا کرنے پر حضرت مسلم خولانی رحمہ اللہ کو آگ میں ڈال دیالیکن اللہ نے اُنہیں بچالیا۔ اِس روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے ’صحیح‘ کہا ہے۔(ایضاً) باقی رہا غلام احمد قادیانی کا دعوائے نبوت تو وہ بھی قطعی طور ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے جناب متین خالد صاحب کی کتاب ’’ثبوت حاضر ہیں‘‘ اور مولانا منظور احمد چنیوٹی صاحب کی کتاب ’’ردّ قادیانیت کے زریں اصول،، کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ہم صرف خان صاحب ہی کی اپنی ایک عبارت کے بیان پر اکتفا کریں گے۔ خان صاحب کی اِس عبارت کے مطابق غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ ٹھیک یہی معاملہ قادیانیت کا ہوا۔ ۱۸۸۹ء میں غلام احمد قادیانی نے اِس کی
Flag Counter