Maktaba Wahhabi

123 - 169
تشکیل کی۔ اِس کے بعد اُس نے دعویٰ کر دیاکہ وہ خدا کا پیغمبر ہے، مگر ۱۹۱۴ء میں اُس کی وفات ہو گئی۔ اِس کے بعد اُس کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کو جانشین بنا یا گیا۔ بیٹے نے اعلان کر دیا کہ اُس کا باپ پیغمبر نہیں تھا، وہ صرف ریفارمر تھا۔ یہاں موقع تھا کہ دوبارہ بیٹے کو استعمال کر کے قادیانی فتنہ کا خاتمہ کر دیا جائے، مگر عداوت کی نفسیات کی بنا پر یہاں کے مسلمان نہ اِس راز کو سمجھ سکے اور نہ ہی اِس کو استعمال کر سکے۔چناچہ یہ امکان بالکل غیر استعمال شدہ رہ گیا۔ یہاں تک کہ شور وغل کی سیاست نے قادیانی فتنہ کو وہاں پہنچا دیا جہاں آج آپ اِس کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:اکتوبر ۱۹۹۶ء، ص۳۸) خان صاحب کی یہ عبارت ۱۹۹۶ء کی ہے اور اب اِس کے ساتھ ذرا ۱۵ سال بعد کی عبارت کا موازنہ کریں تو عجیب وغریب حقائق ظاہر ہوں گے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ اِسی طرح کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانے میں ایسے دو افراد پیدا ہوئے، جنھوں نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ بہاء اللہ خاں(وفات ۱۸۹۲ء)اور مرزا غلام احمد قادیانی(وفات ۱۹۰۸ء)، مگر تاریخی ریکارڈ کے مطابق، یہ بات درست نہیں۔ بہاء اللہ خاں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں مظہر حق ہوں۔ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اِسی طرح مرزا غلام احمد قادیانی نے کبھی اپنی زبان سے یہ نہیں کہاکہ میں خدا کا پیغمبر ہوں۔ اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ میں ظل نبی ہوں، یعنی نبی کا سایہ ہوں۔ اِس طرح کے قول کو ایک قسم کی دیوانگی تو کہا جا سکتا ہے، لیکن اِس کو دعوائے نبوت نہیں کہا جا سکتا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۱۱ء، ص ۱۲۔۱۳) گویا۱۹۹۶ء تک امر واقعہ یہ تھا کہ غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا لیکن ۲۰۱۱ء میں اَمر واقعہ یہ بن گیا کہ غلام احمد قادیانی نے کسی قسم کا نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ ۱۹۹۶ء کے بیان کے مطابق غلام احمد قادیانی کی وفات ۱۹۱۴ء میں ہوئی جبکہ ۲۰۱۱ء کے بیان کے مطابق اُس کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی۔ اِسی طرح خان صاحب کا یہ کہنا کہ غلام احمد قادیانی کے بعد اُس کے بیٹے بشیر الدین محمود کو جانشین بنایا گیا، بھی محل نظر ہے۔ امَر
Flag Counter