Maktaba Wahhabi

126 - 169
نمونہ نہیں ہے کیونکہ آج کے دور میں جہادوقتال ممکن نہیں رہا ۔ آج کے دور میں اُمتِ مسلمہ کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام کا اُسوہ قابل عمل اور نمونہ ہے جو صرف دعوت وتبلیغ کے عمل پر مبنی تھا۔ خان صاحب سورۃ الصف کی آیت ۲۴ کی تشریح وتوضیح میں لکھتے ہیں: ’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ تاریخ میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوں گی کہ محمد ی ماڈل زمانی حالات کی نسبت سے، جزئی طور پر، قابل انطباق (applicable)نہ رہے گا، اِس کی بجائے مسیحی ماڈل، جزئی طور پر، قابل انطباق بن جائے گا۔محمدی ماڈل کیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ۶۱۰ عیسوی میں مکہ میں اپنے پیغمبرانہ مشن کا آغاز کیا۔ آپ کا مشن دوسرے پیغمبروں کی طرح توحید کا مشن تھا۔ نظریاتی اعتبار سے آپ کے مشن اور دوسرے پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق نہ تھا، لیکن زمانی حالات کے اعتبار سے اس کا ایک خاص ماڈل بنا۔ اِس ماڈل کی ترتیب یہ تھی: دعوت، ہجرت، جہاد(بمعنی قتال)اور فتح۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جون ۲۰۰۷ء، ص ۳) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ اِس کے مقابلے میں مسیح کے ماڈل میں آغاز میں بھی دعوت ہے اور انجام میں بھی دعوت۔ مسیح کے دعوتی ماڈل میں ہجرت اور جہاد(بمعنی قتال)کے واقعات موجود نہیں۔ محمدی ماڈل میں ہجرت اور جنگ اِس کے واضح اجزا کے طور پر شامل ہیں، لیکن اب حالات نے ہجرت اور جنگ کو ناقابل عمل بنا دیا ہے۔‘‘(ایضاً:ص ۵۔۶) ایک اور جگہ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ یہی معاملہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے۔ آپ بلاشبہ آخری پیغمبر تھے۔ لیکن آپ ہر صورتِ حال کے لیے آخری نمونہ نہ تھے۔ چنا چہ قرآن میں آپ کے لیے ’اُسوئہ حسنہ، کا لفظ آیا ہے، نہ کہ اُسوئہ کاملہ کا۔(الاحزاب : ۲۱)کسی پیغمبر کو فائنل ماڈل سمجھنا خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت کی تنسیخ کے ہم معنی ہے۔ ایسی تنسیخ ممکن نہیں، اِس لیے عملی اعتبار سے کسی پیغمبر کا فائنل ماڈل ہونا بھی ممکن نہیں۔ فائنل پرافٹ کا تعلق دین کے نظریاتی حصے سے ہے اور نظریاتی اعتبار سے بلاشبہہ ایک پیغمبر فائنل ہو سکتا ہے، لیکن ماڈل کا تعلق خارجی حالات سے ہے۔ یہ حالات ہمیشہ بدلتے
Flag Counter