Maktaba Wahhabi

129 - 169
تبصرہ کرتے ہوئے خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ سلمان رشدی کی کتاب(شیطانی آیات)میں نے خود پڑھی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ایک انتہائی لغو کتاب ہے۔ اِس کتاب کی لغویت کے بارہ میں میری وہی رائے ہے جو دوسروں کی رائے ہے۔ مگر اِس کتاب کے بارہ میں مسلمانوں کا رد عمل کیاہونا چاہیے، اِس سلسلہ میں میری رائے اُن لوگوں سے مختلف ہے جو یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ رشدی کو قتل کر کے اُسے جہنم رسید کرو۔‘‘(شتم رسول کا مسئلہ: ص۵۰) خان صاحب نے سلمان رشدی کی کتاب سے کیا پڑھا اور کیاسمجھا، اِس بارے میں لکھتے ہیں: ’’ سلمان رشدی نے اپنی کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک توہین آمیز نام محاوند(Mahound)کا استعمال کیا ہے۔ یہ نام بلاشبہ اشتعال انگیز حد تک لغو ہے۔‘‘ (ایضاً: ص۳۵۔۳۶) اِس کے بعد خان صاحب نے اِس لفظ کی جو وضاحت کی ہے وہ اِس قدر دل آزار ہے کہ ہم اُسے نقل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔ لیکن اِس کے باوجود خان صاحب سلمان رشدی کے اِس جرم کی نوعیت کی شناعت و شدت کونارمل بنانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ پیغمبر اسلام کے لیے یہ بے ہودہ نام سلمان رشدی کی ذاتی ایجاد نہیں ہے۔ یہ کروسیڈس(۱۲۷۱۔۱۰۹۶ء)کے بعد یورپ میں گھڑا گیا…مگر پچھلے سات سو سال کے اندر اِس گستاخی کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کی سزا نہیں دی گئی اور نہ اِس قسم کا فتویٰ جاری کیا گیا۔‘‘(ایضاً: ص۳۶) ایک اور جگہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے والوں کے جرم کو ایک عام جرم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ سلمان رشدی نے جس کہانی کی بنیاد پر اپنی کتاب کا نام شیطانی آیات رکھا ہے، وہ کہانی سب سے پہلے ۵ نبوی میں مکہ میں وضع کی گئی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن واضعین کو قتل نہیں کرایا۔ سلمان رشدی نے پیغمبر اسلام کے لیے جو گستاخانہ نام ’’محاونڈ،، استعمال کیا ہے، وہ صلیبی جنگوں کے بعد کے دور یورپ میں وضع کیا گیا۔
Flag Counter