Maktaba Wahhabi

130 - 169
مگر اُس وقت کے علماء اسلام نے یہ فتویٰ نہیں دیا کہ جن لوگوں نے یہ گستاخانہ نام وضع کیا ہے، اُنہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیا جائے۔ ازواج مطہرات کے خلاف جو بے ہودہ باتیں سلمان رشدی نے لکھی ہیں، اُس کا مصنف اول مدینہ کا عبد اللہ بن اُبی تھا۔ مگر پیغمبر اسلام نے اصرار کے باوجود اُس کو قتل کرنے سے منع کر دیا۔‘‘(ایضاً: ص۳۶) خود خان صاحب کے بقول سلمان رشدی کی کتاب کا اُنہوں نے مطالعہ کیا ہے اور اُس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ازواجِ مطہرات اور قرآن مجید کے بارے میں اپنی کتاب میں انتہائی لغو، گھٹیا اور غلیظ باتیں لکھی ہیں اور اب اگر اِس پر مسلمان اپنے غم وغصے کا اظہار کریں تو خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ اینٹی رشدی ایجی ٹیشن بلاشبہ لغویت کی حد تک غیراسلامی تھا۔‘‘(ایضاً: ص۶) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ اب اگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ سلمان رشدی کی کتاب سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اور ہم تو اُس کو قتل کر کے رہیں گے ، تو میں کہوں گا کہ مسلمانوں کے جذبات کا مجروح ہونا اسلام کے قانونِ جرائم کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ مسلمان اگر اِس قسم کی کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اِس کو اپنی قومی سرکشی کے نام پر کر سکتے ہیں، مگر اسلام کے نام پر اُنہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘(ایضاً: ص۵۳) خان صاحب توہین رسالت کے مسئلے پر مسلمانوں کے احتجاج یا غم وغصے کے اظہار کو الٹا ’توہینِ رسالت، گردانتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ ڈنمارک کے ایک مقامی اخبار میں چھپنے والے کارٹون کو مسلمانوں نے جس طرح توہین رسالت کا مسئلہ بنایا اور اس پر شدید ہنگامے کیے، اِس کا کوئی بھی تعلق، اسلام سے نہ تھا۔ مذکورہ کارٹون کی حیثیت تو صرف ایک صحافتی جوک(joke)کی تھی۔ اِس قسم کا جوک موجودہ صحافت میں عام ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ردعمل میں جس طرح نفرت اور تشدد کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہ توہین رسول کا ایک فعل تھا…پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ ہے کہ ہر اُس اقدام سے بچو جس سے اسلام کی امیج خراب ہوتی ہو۔ موجودہ زمانہ آزادیٔ اظہارِ رائے (freedom of expression)کا زمانہ ہے۔ ایسے زمانے میں کارٹون جیسے مسئلہ پر ہنگامہ
Flag Counter