Maktaba Wahhabi

131 - 169
کھڑا کرنا، یقینی طور پر یہ تاثر پیدا کرے گا کہ اسلام آزاد ی ٔاظہارِ رائے کے خلاف ہے۔ اگر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں، تب بھی اُنہیں کامل اعراض سے کام لینا چاہیے۔ جذبات کا مجروح ہونا، اُن کے لیے اِس معاملے میں کوئی عذر نہیں بن سکتا۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: ستمبر ۲۰۱۱ء، ص۴۴) خان صاحب ایسے شاتمین رسول کا جواب نہ دینے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’کتا اگر ہاتھی کے اوپر بھونکے تو ہاتھی کو اِس کی ضرورت نہیں کہ وہ کتے کی بھونک کی تردید کرے۔ ہاتھی اپنے باعظمت وجود کے ساتھ اپنے آپ کتے کی بھونک کی تردید ہے۔‘‘(شتم رسول کا مسئلہ: ص۴۰) راقم نے خان صاحب کی کتاب’’شتم رسول کا مسئلہ: قرآن وحدیث اور فقہ وتاریخ کی روشنی میں،، کا مطالعہ کیا ہے ۔ اِس کتاب کے غلط نتائج کا بنیادی سبب یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی اِس کتاب میں کتاب وسنت اور فقہ وتاریخ کو ’اصولِ منہاج،(Principle of Methodology for Implemetation of Shari'ah)کی روشنی میں نہیں دیکھا بلکہ صرف ’شریعت ، کے پہلو سے دیکھنے کی کوشش کی ہے جبکہ نظر کا یہ پہلو بھی ناقص ہے۔ بعض خاص حالات میں بعض مخصوص افراد کے حوالہ سے جو یہ سزا جاری نہیں کی گئی ہے تو اِس میں کچھ موانع اور مصالح پیش نظر تھیں۔ بعض اوقات کسی مجرم کی سزا مصالح یا موانع(Public Interests or Preventors)کی وجہ سے مؤخر کر دی جاتی ہے اور اِس حکمت لحاظ صرف اسلام میں نہیں بلکہ دنیا کے ہر قانون میں ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن ابی منافق کے قصے میں منقول ہے: ((فقام عمر فقال: یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم! دعنی أضرب عنق ھذا المنافق، فقال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم دعہ، لا یتحدث الناس أن محمدا یقتل أصحابہ))(صحیح بخاری، کتاب تفسیر القرآن، باب قولہ سواء علیھم أستغفرت لھم أم لم تستغفرلھم) ’’ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter