Maktaba Wahhabi

151 - 169
بغض، کینہ، غصہ، غیظ، غضب، عداوت، کفر اور نفاق وغیرہ قلوب کے افعال واعمال ہیں۔ کتاب وسنت کی نصوص میں اِن اعمال کی نسبت قلب انسانی کی طرف کی گئی ہے اور کسی انسان کی اصلاح اور بگاڑ میں اِن اعمال کی اہمیت سے انکار کسی طور ممکن نہیں ہے۔ پس قلب کی اصلاح کے بغیر نفس انسانی کی اصلاح کا تصور سراسر ایک غیر اسلامی تصور ہے اور اہم سے زیادہ اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَہُمْ قُلُوبٌ یَعْقِلُونَ بِہَا أَوْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُورِ﴾(الحج: ۴۶) ’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں، پس اُن کے دل ہوتے کہ جن سے وہ سمجھتے، اُن کے کان ہوتے کہ جن سے وہ سنتے ۔ پس بلاشبہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ اِس آیت مبارکہ میں ﴿الَّتِیْ فِیْ الصُّدُورِ﴾ کے الفاظ نے ’قلوب‘ کا معنی نص صریح کی طرح واضح کر دیا ہے کہ ’قلوب‘سے اللہ کی مراد وہ ’قلوب‘ ہیں جو سینے میں ہوتے ہیں۔ اِسے اُصول فقہ کی اصطلاح میں کہتے ہیں کہ متکلم نے اپنے کلام کی خود ہی تفسیر کر دی ہے اور جب متکلم اپنے کلام کی تفسیر کر دے تو وہ کلام ’مفسر، بن جاتا ہے کہ جس میں مخاطَب کی طرف سے کسی تاویل کی گنجائشختم ہو جاتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اِس آیت مبارکہ میں ’’تعقل‘‘(quality to differentiate between right and wrong, good and evil)کی نسبت ’قلوب‘ کی طرف کی گئی ہے جو کہ افعال قلوب میں سے ایک فعل ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿أَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَی قُلُوبٍ أَقْفَالُہَا﴾(محمد: ۲۴) ’’ وہ قرآن مجید پر تدبر کیوں نہیں کرتے۔ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں۔‘‘ اِس آیت مبارکہ میں ’تدبر‘کی نسبت ’قلب‘ کی طرف کی گئی ہے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ قلب انسانی کی صفت ’تدبر‘ سے کیا مراد ہے اور یہ کیسے ممکن ہے؟ اِسی طرح شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہے، اور اِس کا کام ہی انسان کی اصلاح میں رکاوٹ ڈالنا ہے ، اُس کے طریقہ واردات کے بارے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter