Maktaba Wahhabi

168 - 169
مودودی رحمہ اللہ کی مخاصمت وعداوت نے اُن کے علم وفکر اور عمل وتحریک کو منفی راہ پر لگا دیا ہے۔ ایک لفظ میں اُن کا مسئلہ بیان کیا جائے تو وہ اُن کے ذہن کی پیچیدگیاں ہیں کہ جن کا بنیادی سبب اُن کا مزاج ہے۔ اُن کے مزاج کی ضد، چڑان، اِحساس برتری، تنقید پسندی، خود بینی اور خود پسندی وغیرہ اُن کی تحریروں ،خاص طور پراُن کی اُس خط وکتابت میں بہت واضح نظر آتی ہے جو وقتاً فوقتاً مختلف اہل علم سے ہوتی رہی ہے۔ مزاج کی خامیاں ہر کسی میں کسی نہ کسی درجے میں ہوتی ہیں اور اگر بڑے لوگوں میں ہوں تو بڑے پیمانے پربگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ مزاج کی اِس خامی کو خان صاحب یا تو پہچان نہیں پائے یا پھر پہچان کر اصلاح نہ کرپائے اور زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ وہ پہچان ہی نہ پائے۔ اِس مزاج نے اُنہیں اپنے فکر اور منہج دونوں میں معتدل نہ رہنے دیااور وہ صراط مستقیم سے ہٹ کر بدعی منہج پر گامزن ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اِس مزاج نے اُن میں کئی ایک نفسیاتی اُلجھنوں مثلاً منفی سوچ کا ذہن پر حاوی ہونا، ردِ عمل کی نفسیات، فریق مخالف سے احساسِ نفرت اور عدم برداشت وغیرہ جیسے رویوں کو جنم دیااور یہ نفسیاتی عوارض اُن کی شخصیت کا اس قدر جزو بن چکے ہیں کہ اب اُن کی اصلاح عمر کے اِس حصے میں شاید آسان نہیں ہے۔ وہ اپنے تخیلات کی ایک محدود دنیا میں رہنے کے اِس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ وہ اُس سے باہر کی دنیا میں جھانکنا تو دور کی بات اُس کے موجود ہونے کے امکان کے بھی قائل نہیں ہیں۔ اِس ذہنی کیفیت کے بارے خان صاحب لکھتے ہیں: ’’محدودیت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس کو جغرافی کوکون(geoghraphical cocoon)کہا جا سکتا ہے۔ اور دوسرا وہ ہے جس کو فکری کوکون(intellectual cocoon)کہنا درست ہو گا…ذہنی کوکون میں وہ لوگ مبتلا رہتے ہیں جو کسی سبب سے اپنی ذات میں جینے لگیں مثلاً شعوری یا غیر شعوری طور پر اُن کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہو جائے…ایسے لوگ اگر اعلی تعلیم حاصل کریں، اُن کو مختلف ملکوں میں سفر کرنے کا موقع ملے، وہ میڈیا میں نظر آئیں، تب بھی وہ اپنے مخصوص ذہن کی بنا پر اپنے ہی خول میں جئیں گے، وہ بدستور فکری محدودیت کا شکار رہیں گے۔ اُن کی اپنی ذات سے باہر بہت سی چیزیں ہو گی جس
Flag Counter