Maktaba Wahhabi

64 - 169
ایک روایت میں دابہ کی صفات یوں بیان کی گئی ہیں: ((تَخْرُجُ الدَّابَّۃُ، فَتَسِمُ النَّاسَ عَلٰی خَرَاطِیْمِھِمْ، ثُمَّ یَغْمُرُوْنَ فِیْکُمْ حَتّٰی یَشْتَرِی الرَّجُلُ الْبَعِیْرَ، فَیَقُوْلُ: مِمَّنِ اشْتَرَیْتَہٗ؟ فَیَقُوْلُ: اشْتَرَیْتُہٗ مِنْ اَحَدِ الْمُخَطَّمِیْنَ))(مسند أحمد: ۳۶؍۶۴۷) ’’دابہ کا خروج ہو گا اور وہ لوگوں کی ناک پر نشان لگا دے گا( یعنی مؤمن کی ناک پر ایک خاص قسم کا نشان لگائے گا اور کافر کی ناک پر ایک دوسری قسم کا نشان لگا ئے گا)۔ پس اِن نشان لگے ہوؤں کی تم میں اِس قدر کثرت ہو جائے گی کہ ایک شخص ایک اونٹ خریدے گا اور دوسراکہے گا کہ تم نے کس سے یہ اونٹ خریدا ہے تو پہلا کہے گا کہ ناک پر نشان لگے ہوؤں میں سے ایک سے خریدا ہے۔‘‘ اگر دابہ سے مراد انسان ہو تو انسان کے کلام کرنے میں نشانی والی کیا بات ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے والے دابہ کو بطورِ خاص قیامت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ اور پھر دابۃ الارض اگر لوگوں کی ناک پر کافر یا مؤمن ہونے کے نشانات لگائے تو اِس کا قیامت کی نشانی ہونا سمجھ آتا ہے ،لیکن ایک داعی کے کسی کافر یا مؤمن کے ناک ہی پر نشان لگانے کا کیا معنی ہے؟ اور پھر اونٹ خریدنے کے ایک عام واقعہ کو اِس روایت کا حصہ بنانے میں کیا تعلیم مقصود ہے؟ اِس کی تاویلات تاحال خان صاحب کی توجہ کی منتظر ہیں۔ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: ((ثَلَاثٌ اِذَا خَرَجْنَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُھَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِھَا خَیْرًا: طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِھَا وَالدَّجَّالُ وَدَابَّۃُ الْاَرْضِ))(صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الإیمان) ’’تین چیزوں کا جب ظہور ہو جائے گا تو اُس وقت کسی بھی جان کو جو کہ اُس سے پہلے ایمان نہ لائی ہو یا اُس نے حالت ایمان میں کوئی نیکی نہ کی ہو ، اُس کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا: سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا ظہور اور دابۃ الارض کا نکلنا۔‘‘ خان صاحب اِس روایت کی کیا تاویل فرمائیں گے؟ خان صاحب کی تاویل کے مطابق دورِ آخر کے اِس داعی دابۃ الارض کے ظہور کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ باقی
Flag Counter