Maktaba Wahhabi

65 - 169
نہیں رہ گیا؟ اگر رہ گیا ہے تو اِس روایت کا مفہوم کیاہے؟ اور اگر نہیں تو وہ داعی اپنی دعوت سے کر کیا رہا ہے؟ اِسی طرح خان صاحب نے امام قرطبی رحمہ اللہ سے یہ قول تو نقل کر دیا کہ بعض متاخرین کا خیال ہے کہ دابہ سے مرا د انسان ہے ،لیکن امام قرطبی رحمہ اللہ نے اِس قول پر اپنے شیخ سے جو نقد نقل کی ہے، اُس کی طرف اشارہ کرنا بھی خان صاحب نے پسند نہیں فرمایا۔ امام قرطبی رحمہ اللہ اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’قال بعض المتأخرین من المفسرین: إن الأقرب أن تکون ھذہ الدابۃ انسانا متکلما یناظر أھل البدع والکفر ویجادلھم لینقطعوا، فیھلک من ھلک عن بینۃ ویحیا من حی عن بینۃ۔ قال شیخنا الإمام أبو العباس أحمد بن عمر القرطبی فی کتاب المفھم لہ : وإنما کان عند ھذا القائل الأقرب لقولہ تعالیٰ ﴿تُکَلِّمُھُم﴾ وعلی ھذا فلا یکون فی ھذہ الدابۃ آیۃ خاصۃ خارقۃ للعادۃ، ولا یکون من العشر الآیات المذکورۃ فی الحدیث، لأن وجود المناظرین والمحتجین علی أھل البدع کثیر، فلا آیۃ خاصۃ بھا فلا ینبغی أن تذکر مع العشر، وترتقع خصوصیۃ وجودھا إذا وقع القول، ثم فیہ العدول عن تسمیۃ ھذا الإنسان المناظر الفاضل العالم الذی علی أھل الأرض أن یسموہ باسم الإنسان أو بالعالم أو بالإمام إلی أن یسمی بدابۃ، وھذا خروج عن عادۃ الفصحاء، وعن تعظیم العلماء، ولیس ذلک دأب العقلاء، فالأولی ما قالہ أھل التفسیر، واللّٰه أعلم بحقائق الأمور۔‘‘(تفسیر القرطبی: ۱۳؍۲۳۶) ’’بعض متاخرین مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ دابۃ الارض سے مراد وہ متکلم انسان ہو جو اہلِ کفر اور اہلِ بدعت سے مناظرہ اور مکالمہ کرتا ہے تا کہ اُن کی دلیل ختم ہو جائے اور جس نے زندہ رہنا ہے وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور جس نے مرنا ہے وہ دلیل کے ساتھ مر جائے۔ ہمارے شیخ ابو العباس احمد بن عمر قرطبی نے اپنی کتاب ’المفہم، میں لکھا ہے کہ اِس قول کے قائلین کی بہترین دلیل ﴿تُکَلِّمُھُم﴾کے الفاظ ہیں کہ وہ دابہ کلام کرنے والا ہو
Flag Counter