Maktaba Wahhabi

84 - 169
اگر ملت سے ثابت ہو جائے تو وہ اُس کو حل کرنے کے لیے بے قرار ہوجاتے ہیں، لیکن قریب جا کر دیکھئے تو معلوم ہو گا کہ اُن کے اِس اظہارِ غم کی حیثیت رسمی تعزیت سے زیادہ نہیں ہے جو مرنے والے کے غم میں نہیں بلکہ صرف اِس اندیشے سے کی جاتی ہے کہ زندہ رہنے والوں کو شکایت ہو گی۔ اپنے آج کے حاصل شدہ دائرے میں وہ نہایت سطحی اور غیر ذمہ دارانہ زندگی گزار رہے ہوں گے،مگر اپنی انقلابی تحریک کی کامیابی کے بعد انھیں کام کا جو وسیع تر دائرہ حاصل ہو گا اُس کا نقشہ اِس طرح پیش کریں گے گویا خلافتِ راشدہ اَز سر نو دنیا میں لوٹ آئے گی۔‘‘(تعبیر کی غلطی : ص۲۶۷) بلاشہ انقلابی تحریکوں کے کارکنان کی اصلاح کے بیان میں خان صاحب کے لیے یہ الفاظ بہت ہی قیمتی الفاظ ہیں۔ ایک اور جگہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے فکری لٹریچر کی حیثیت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ میں نے کہا کہ میرا اصل مسئلہ مولانا مودودی کے لٹریچر کا مسئلہ ہے --- اُنہوں[جماعت اسلامی کے ساتھیوں] نے کہا اِس کا مطلب ہے کہ ہم لٹریچر کو بالکل غلط سمجھیں اور اُس کو ترک کر دیں۔میں نے کہا میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اِس کو بالکل غلط سمجھیں اور نہ مکتبہ یا لائبریری میں اِس کی موجودگی پر مجھے اعتراض ہے۔ میرا اعتراض دراصل اُس کی حیثیت پر ہے۔ کیونکہ میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے حلقہ میں اِس کی حیثیت یہ بن گئی ہے گویا یہی لٹریچر جماعت اسلامی کی فکر کا مستند ترجمان ہے۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص ۱۰۰۔۱۰۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خان صاحب نے اپنی کتاب ’تعبیر کی غلطی، میں فکرِ مودودی میں غلو اور اُس سے پیدا ہونے والے نتائج کی نسبت جو توضیحات پیش کی ہیں وہ کافی حد تک درست ہیں اگرچہ بیان میں کہیں کہیں بے جا سختی موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس زمانے میں بھی ،جبکہ تعبیر کی غلطی لکھی گئی تھی،جماعت کے سینئر رفقاء کی ایک تعداد نے خان صاحب کی اِس تنقید کو کھلے دل سے قبول کیا۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ ایک صاحب جو جماعت اسلامی کے ایک شعبہ کے ذمہ دار اعلیٰ اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں،انھوں نے کہا :اسپرٹ سے اتفاق tone سے اختلاف۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص۳۰۔۳۱)
Flag Counter