Maktaba Wahhabi

85 - 169
محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ ، جو خان صاحب کی طرح جماعت اسلامی سے فکری اختلافات کی بنا پر علیحدہ ہوئے، کے بقول اُنہوں نے بھی مولانا مودودی رحمہ اللہ کی فکر میں اِس عدم توازن کو نہ صرف محسوس کیا بلکہ اپنی تحریک،تنظیم اسلامی میں ختم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اُنہوں نے ایک طرف اپنی انقلابی تنظیم کے کارکنان کے اَذہان وقلوب میں عبادتِ رب کو مقصد زندگی اور رضائے الٰہی کو نصب العین بنانے کی فکر کو راسخ کیا تو دوسری طرف اجتماع ومعاشرے کی اصلاح کے ساتھ ساتھ فرد کے تزکیہ ٔنفس اور ذاتی اصلاح کے عمل کو بھی شدو مد سے موضوعِ تربیت بنایا۔ بہر حال خان صاحب اور جماعت اسلامی کے اراکین کی دو طرفہ سختی نے اسے ردّ عمل کا مسئلہ بنا دیا۔ اب ہمارے لیے یہ طے کرنا کہ سختی کا آغاز کس کی طرف سے ہوا،ایک مشکل امر ہے۔ اگرچہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی ابتدا خان صاحب کی طرف سے ہوئی۔ خان صاحب اپنی سختی کے بارے کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری تحریر کا انداز بظاہر سخت ہے۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص ۱۲۲) جبکہ دوسری طرف مولانا جلیل احسن ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’جناب وحید الدین خان کو میرا سلام کہئے اور یہ کہ میرے اِس کارڈ میں اگر کچھ تلخی آ گئی ہو تو واجب ہے اُن پر کہ اِس کا خیال نہ کریں کیونکہ یہ تلخی خود اُن کی پیدا کردہ ہے۔‘‘(تعبیر کی غلطی : ص ۵۰) بہر حال سختی اور تلخی پیدا کرنے کا آغاز اگرچہ ’تعبیر کی غلطی، کی۱۹۶۳ء میں پہلی مرتبہ اشاعتِ عام کی صورت میں خان صاحب ہی کی طرف سے ہوا ہو لیکن یہ بھی ایک اَمر واقعہ ہے کہ جماعت کے حلقوں کی طرف سے اِس تلخی کا جواب،اینٹ کا جواب پتھر کی صورت میں دیا گیااور اگلے بیس پچیس سالوں میں خان صاحب کے بقول اُن کی خوب کھچائی کی گئی۔ ۱۹۸۶ء میں خان صاحب لکھتے ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ تعبیر کی غلطی میں جس فکر کو زیر بحث لایا گیا ہے وہ علمی میدان میں سراسر شکست کھا چکا ہے، مگر اِس کے افراد کی عصبیت اُن کو اعتراف پر آمادہ نہیں ہونے دیتی۔ اپنی شکست خوردہ ذہنیت کا مظاہرہ اب وہ اِس طرح کر رہے ہیں کہ وہ
Flag Counter