Maktaba Wahhabi

88 - 169
میں جو ملیٹنسی چلائی جا رہی ہے،اُس کا تعلق حقیقی اسلام سے نہیں۔ یہ تمام تر اُس جدید لٹریچر کا نتیجہ ہے جس میں اسلام کا پولیٹسائزڈ ورژن(politisized version) پیش کیا گیا ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اِس کو دوبارہ ڈی پولیٹسائزڈ کیا جائے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: جولائی ۲۰۰۷ء،ص ۳۳۔۳۴) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’ موجودہ زمانے میں انقلاب پسند مسلمانوں کا ایک عمومی نعرہ وہ ہے جس کو شریعت محمدی کا نفاذ کہا جاتا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک خود ساختہ نعرہ ہے۔ اِس کی تائید قرآن اور حدیث سے نہیں ہوتی۔ اس کے برحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور حدیث میں کوئی حکم اِس طرح کے الفاظ میں آیا ہو : نفِّذ شریعۃ محمد(شریعت محمدی کو نافذ کرو)اور جب قرآن اور حدیث میں کوئی حکم اِس طرح کے الفاظ میں نہ آیا ہو تو اِس کی بنیاد پر سیاست چلانابلاشبہ ایک مبتدعانہ سیاست ہے،وہ کوئی اسلامی کام نہیں۔ نفاذِشریعت کا تصور کوئی سادہ تصور نہیں،یہ اسلام کے اندر ایک بہت بڑی برائی داخل کرنے کے ہم معنی ہے۔ اِس تصور نے اسلام کو بزور نفاذ کا موضوع بنا دیا ہے،حالاں کہ اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے اختیارانہ پیروی کا نام ہے۔ ’’نفاذِ شریعت‘‘ ایک خوبصورت لفظ ہے،لیکن عملی نتیجے کے اعتبار سے وہ تخریب کاری ہے،اور صرف تخریب کاری۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص ۲۹) ایک اور جگہ لکھتے ہیں: ’’پاکستان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک منفی ملک کے طور پر وجود میں آیا۔ جس چیز کو پاکستان کے لوگ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کہتے ہیں،وہ کیا ہے۔ وہ دراصل اینٹی ہندو سوچ کا ایک خوب صورت نام ہے،اور اینٹی ہندو سوچ کا مطلب ہے اینٹی مدعو سوچ،جو بلاشبہ اسلام میں حرام ہے۔ پاکستا ن اولاً اینٹی ہندو فکر کے تحت بنا۔ اِس کے بعد دھیرے دھیرے یہ فکر اینٹی آل فکر(anti all thinking)بن گیا۔ پاکستان کے تمام مسائل دراصل اِسی منفی سوچ کا نتیجہ ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق،اب یہ معاملہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ پاکستان میں منفی سوچ کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہے......اب صرف ایک ہی چیز ممکن ہے،وہ یہ کہ افراد اپنے آپ کو اِس منفی طوفان
Flag Counter