Maktaba Wahhabi

43 - 103
جواب دیا تو شیطان حاضر ہو گیا۔ اے ابو بکر! تین باتیں بالکل سچی اور حق ہیں: 1۔جس شخص پر بھی کوئی ظلم کیا جائے پھر وہ اللہ کی خاطر اس سے درگذر کرے تو اللہ تعالیٰ اس درگذر کرنے کی بناء پر اس کی زبردست مدد کرتا ہے۔ 2۔جو شخص بھی عطیے اور صدقے کے ذریعے صلہ رحمہ چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال میں بہت اضافہ کر دیتا ہے۔ 3۔اور جو شخص لوگوں سے مانگ مانگ کر اپنے مال میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مال میں بہت زیادہ کمی کر دیتا ہے‘‘۔ (رواہ احمد)۔ 2۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آپس میں دو آدمی گالی دینے والے ایک دوسرے کو جو کچھ بھی کہہ دیں تو زیادہ وبال گالی شروع کرنے والے پر ہو گا شرط یہ ہے کہ مظلوم حد سے زیادتی نہ کرے‘‘ (رواہ مسلم)۔ اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی انسان کو گالی دے یا کوئی تکلیف دینے کی ابتدا کرتا ہے تو دوسرا شخص اسی کے برابر جواب دے سکتا ہے۔ اور گناہ ابتدا کرنے والے پر ہو گا اس لئے کہ جواب دینے والا جو کچھ کہتا ہے اس کا باعث ابتدا کرنے والا ہی بنا ہے۔ شرط یہ ہے کہ جواب دینے والا شخص ایذا رسانی میں زیادتی نہ کرے۔ جتنی وہ زیادتی کرے گا اس کے مطابق اسے بھی گناہ ہو گا۔ اس لئے کہ اسے انتا ہی جوب دینے کی اجازت دی گئی ہے جتنا اسے ستایا گیا ہے۔ یا برا بھلا کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰه اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ﴾ (سورۃ الشوریٰ:40)۔ ’’برائی کا بدلہ اتنی برائی ہی سے دیا جاتا ہے۔ جو شخص معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اللہ کے ذمے اس کا اجر ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ظالموں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ بدلہ نہ لینا، صبر اور برداشت کرنا بہتر ہے جس طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی پہلی حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ 3۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’اللہ کے نزدیک وہ شخص بہت قابلِ نفرت ہے جو سخت جھگڑالو ہو‘‘ (متفق علیہ)۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص سے بغض رکھتا ہے جو اپنے ساتھ کے ساتھ شدید جھگڑا کرتا ہے۔ مِرآء (جھگڑے) کی حقیقت یہ ہے کہ تو اپنے غیر کے کلام میں طعن کرے۔ بغیر کسی مقصد کے اس کے کلام کی خرابی ظاہر کرے۔ مقصد صرف اسے ذلیل کرنا اور اپنی خوبی اس پر ظاہر کرنا ہو۔ (سبل السلام للسنعانی
Flag Counter