Maktaba Wahhabi

135 - 402
باوصف خوش گفتار اور باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔درس و تدریس میں بھی اور علمی حلقوں میں بھی ان کا ایک امتیاز تھا۔زندگی میں کئی مرتبہ وہ بطور مدرس اور شیخ الحدیث بڑے بڑے دار العلوموں میں مسندِ تدریس پر فائز رہے۔ان دینی ذمے داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ مسلکی اور قومی سیاست پر بھی ان کی گہری نظر رہتی۔تبلیغی جلسوں،کانفرنسوں اور جماعتی اجلاسوں اور خطباتِ جمعہ میں شرعی مسائل کا بیان بھی ہوتا اور سیاسیات پر بڑا صائب اور خوب صورت تبصرہ فرماتے۔وہ حالاتِ حاضرہ کے پیش آمدہ مسائل کا گہرا تجزیہ فرماتے۔مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے وہ تادمِ واپسیں سینئر نائب امیر رہے۔جماعتی اجلاسوں میں ان کی شمولیت ضروری سمجھی جاتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا غزنوی اور مولانا سلفی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے عظیم معمار تھے،لیکن فیصل آباد کے بلند مراتب علما و زعما مولانا محمد اسحاق چیمہ،مولانا عبیداﷲ احرار اور مولانا محمد صدیق کے اسمائے گرامی اولین کرداروں میں نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔ان میں ہمارے محترم مولانا محمد اسحاق بھٹی کا شمار بھی یقینا ہوتا ہے،جن کا تعلق بھی ضلع فیصل آباد ہی سے ہے۔یہ چہار درویش آپس میں شیر و شکر،بے تکلف اور ہم عمر بھی تھے۔یہ اصحابِ فکر و نظر ہماری یادوں کے گلستان میں مہکتے ہوئے پھولوں کی مانند ہیں۔اللھم اغفرلھم۔ مولانا علیہ الرحمہ کے بیان و کلام میں قرآن و حدیث کے دلائل کی بھرمار ہوتی۔ان کی آواز میں بے حد دبدبہ اور جلال تھا۔تاندلیانوالہ کے علاقے کی ٹھیٹھ پنجابی اور بلوچی رعب داب سے جب وہ تقریر کرتے اور اپنے مخصوص سحر انگیز انداز سے قرآن کی تلاوت فرماتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔پنجابی اور اردو دونوں زبانوں میں حسبِ حال نہایت شیریں اور شعلہ نوائی سے خطابت کے ایسے جوہر دکھاتے کہ
Flag Counter