Maktaba Wahhabi

166 - 402
میں ادا کرتے۔کبھی کبھار شہر آنا ہوتا تو عصر کی نماز مسجد رحمانیہ مندر گلی ادا کرتے،اس طرح اُن سے ملاقات ہوتی رہتی۔ مرحوم مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ساتھ ایک مدت سے وابستہ تھے۔اُن کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ جماعت کے تمام گروپ مرکزی جمعیت کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر مسلک اور ملک و ملت کی خدمات انجام دیں،تاکہ اُن کا وزن باقی دینی جماعتوں سے کم نظر نہ آئے۔جمعیت کے مرکزی شوریٰ کے اجلاس منعقدہ 10 اپریل،جامعہ سلفیہ میں وہ بہت خوش نظر آ رہے تھے،جن میں ملک کے اطراف و اکناف سے بھاری تعداد میں ارکانِ شوریٰ تشریف فرما تھے۔سابقہ جماعتی شوریٰ کے روایتی اجلاسوں کی نسبت یہ اجلاس بلاشبہہ ہر طرح کامیاب اور پر رونق تھا۔امیر محترم علامہ ساجد میر کی قیادت کو بہت سراہتے۔ مولانا غلام اﷲ علیہ الرحمہ زہد و تقوے کے مجسم،علم و عمل کے پیکر،ملنسار اور متواضع شخصیت کے مالک تھے۔رمضان المبارک گزار لینے کے بعد شوال کے روزے حسبِ معمول رکھ رہے تھے کہ 10 نومبر جمعرات کی سحری کے لیے گھر والوں نے جگانا چاہا،مگر وہ رات کے کسی حصے میں اپنے رب کے حضور پہنچ چکے تھے۔ اسی روز نمازِ عصر کے بعد جامعہ سلفیہ میں ان کی نمازِ جنازہ شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید مجاہد آبادی نے رقت اور بڑے الحاح و خشیت کے ساتھ پڑھائی۔اساتذۂ جامعہ شیخ الحدیث مولانا عبدالعزیز علوی،نائب شیخ الحدیث مولانا حافظ مسعود عالم،مولانا محمد یونس بٹ،مولانا محمد یاسین ظفر اور دوسرے اساتذہ کے علاوہ مولانا حافظ عبدالرزاق سعیدی،مولانا محمد یحییٰ فاروق آبادی اور شہر بھر کے علما و تاجر طبقہ کثیر تعداد میں نمازِ جنازہ میں شامل تھے۔اگرچہ چھٹیوں کے سبب طلبائے جامعہ موجود نہ تھے،تاہم
Flag Counter