Maktaba Wahhabi

224 - 402
ہیں۔حاضر جوابی اور بات سے بات نکال لینے میں اپنا ہی اچھوتا ڈھنگ رکھتے ہیں۔ان کے سمجھانے کا انداز اور دعوتِ دین کا طریقہ کچھ ایسا موثر ہے کہ فوراً ان کی بات لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔عام گفتگو میں ہلکا پھلکا مزاح پیدا کر لیتے ہیں۔ان کی باتوں میں خشکی یا یبوست بالکل نہیں ہوتی۔ مولانا محمد عبداﷲ بلاشبہہ قافلۂ علمائے سلف کی آخری نشانی اور جماعت کی متاعِ عزیز ہیں۔تحریکِ پاکستان اور ختمِ نبوت کی تحریکوں 53ء اور 74ء میں وہ سرِفہرست اور ہر سطح پر پیش پیش رہے۔فرماتے ہیں کہ تحریکِ ختمِ نبوت میں جب ملتان جیل میں تھا تو میں نے بڑے بڑے جرائم کے مرتکب قیدیوں کو دیکھا کہ کسی کے ہاتھ میں تسبیح ہے،کوئی ڈاڑھی بڑھائے ہوئے ہے تو کوئی ذکر و اذکار کر رہا ہے۔یہ لوگ میری بہت خدمت کرتے تھے۔میں انھیں نمازیں پڑھاتا اور جمعہ کے خطبات سناتا۔میں نے انھیں کہا کہ بھئی! ’’مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں جیل میں نہیں بلکہ رائیونڈ آیا ہوا ہوں۔‘‘ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ابتدائی دور میں بحیثیت امیرِ ضلع ملتان (اس دور میں وہاڑی اور خانیوال بھی اسی ضلع میں شامل تھے) اور پھر مرکز میں ناظمِ تبلیغ کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے ان کی تبلیغی و تنظیمی کارگزاری ناقابلِ فراموش ہے۔ ضلع ملتان میں ان کے دستِ راست اور ناظمِ ضلع بزرگ کا رکن عبدالرشید صدیقی مرحوم کی خدمات اور کاوشیں جماعتی تاریخ کا روشن باب ہیں۔صدیقی صاحب ذہنی طور پر احراری تھے۔احرار راہنماؤں خصوصاً سید عطاء اﷲ شاہ بخاری سے انھیں بڑی عقیدت تھی۔تقسیمِ ملک کے موقع پر جب شاہ صاحب امرتسر سے ہجرت کر کے ملتان آئے تو انھوں نے صدیقی صاحب کے مکان پر چند ماہ رہایش اختیار کی تھی۔شاہ جی کہا کرتے تھے: ’’عبدالرشید صدیقی تو میرا ابو ایوب انصاری ہے۔‘‘
Flag Counter