Maktaba Wahhabi

23 - 402
کرتے ہوئے محلہ محلہ اور گلی کوچوں میں ’’پاکستان کا مطلب کیا،لا إلہ إلا اللّٰه ‘‘ اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘،’’بن کے رہے گا پاکستان‘‘ جیسے نعرے لگواتا۔روزانہ جلسے ہوتے،ہندوؤں سکھوں سے جھگڑے اور فسادات بھی رونما ہو جاتے،لیکن ان میں اکثر مسلمان بچے غالب رہتے۔اپنے بزرگوں اور نوجوانوں کے ساتھ دوش بدوش مل کر ہم اس قسم کی جارحانہ محفلوں کو خوب سجاتے۔ بالآخر وہ روزِ سعید 14 اگست 1947ء بھی آیا،جب پاکستان معرضِ وجود میں آگیا،مگر اس راہ کی اندوہناک مشکلات و مصائب ایک ایسا دلخراش سانحہ تھا،جس کی ناقابلِ فراموش یادیں آج بھی نگاہ میں آتی ہیں تو دل و دماغ کو غم زدہ کر جاتی ہیں۔ مشرقی پنجاب کے اضلاع سے مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے ہندوؤں سکھوں سے مقابلے کرتے ہوئے اور تہ تیغ ہوتے ہوئے قصور اور لاہور کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہوئے،جن میں ہمارا خاندان بھی تھا۔ہم کسی قدر سہولت کے ساتھ قصور میں اپنے عزیزوں کے پاس پہنچ گئے۔قصور ریلوے اسٹیشن پر مہاجرین کے کیمپ میں میرے والد روزانہ اپنے رفقا کے ساتھ کھانے پینے کا سامان لے کر جاتے۔یہ رمضان المبارک کے آخری 29,28,27 ایام تھے۔ عید الفطر کی صبح والد صاحب کو کیمپ میں مولانا عبداﷲ ثانی نظر آئے تو یہ انھیں بچوں سمیت اپنے گھر کوٹ غلام محمد خان میں لے آئے۔مولانا ثانی نے قصور کی جماعت کے کہنے پر گورنمنٹ ہائی سکول کی گراؤنڈ میں نمازِ عید پڑھائی۔عید کے خطبے میں مہاجرین کی بے بسی،شہادتوں اور جانی و مالی قربانیوں کی پرآشوب داستان اور غم و الم میں ڈوبی ہوئی باتیں کیں،جس سے ماحول غمزدہ ہو گیا،نتیجتاً وہاں ہر آنکھ سے آنسو بہ رہے تھے،جو ختم ہونے کو نہ آتے تھے۔
Flag Counter