Maktaba Wahhabi

263 - 402
مناظر مولانا احمد دین گکھڑوی خطابت اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔مولانا گکھڑوی قادیانیوں،نیچریوں،آریہ سماج جیسی باطل قوتوں اور اپنوں اور بیگانوں سے ساری زندگی برسرِ پیکار رہے اور ہر محاذ پر کامیابی و کامرانی کے جھنڈے گاڑتے رہے۔ مرکزی جامع اہلِ حدیث میں خدماتِ دینیہ کے دوران میں ان کی دعوت پر جن اسلاف کرام نے اسی مسجد میں خطباتِ جمعہ ارشاد فرمائے،ان میں سرِفہرست مولانا احمد دین کے استاذِ گرامی اور مقتدر راہنما،تفسیر و رموزِ قرآن مجید کے شناور،سیاسیات کے میدان کے حیرت کیش قائد اور تحریکِ پاکستان کے بلند مرتبت مجاہد حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی تھے۔انھوں نے خطبہ جمعہ میں تقسیمِ ملک کی اہمیت،تحریکِ ختمِ نبوت 1953ء کے نتائج و اثرات اور مسلکِ اہلِ حدیث کی حقانیت و صداقت پر مختصراً مگر جامع اظہارِ خیال فرمایا۔آپ علم و عمل کی دنیا میں قرونِ اولیٰ کے محدثین و مفسرینِ کرام کی ایک حسین یادگار تھے،جن کے بارے میں مولانا حالی نے کہا تھا ع گروہ ایک جویا تھا علمِ نبی کا لگایا پتا اس نے ہر مفتری کا نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا اسی سلسلۂ خطابت کے دوسرے بڑے عالمِ دین اور مولانا احمد دین گکھڑوی کے جگری و بے تکلف دوست مولانا نور حسین گرجاکھی تھے۔وہ مولانا گکھڑوی کے ہم عمر،خوب صورت قد و قامت اور جسمانی چہرے مہرے کی وجاہت رکھنے والے بارعب اہلِ علم و فضل تھے۔انھوں نے مولانا گکھڑوی کی دعوت پر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور اتباعِ رسول جیسے اہم ترین موضوع پر خطاب فرمایا،انھوں نے پنجابی اشعار اور روح پرور
Flag Counter