میں اپنے خاص پیرائے میں کی جانے والی تقریر میں سامعین میں ایسا جذبہ پیدا کریں کہ وہ مالی فراہمی کی طرف آمادہ ہو جائیں اور رات کے اجلاس میں مولانا محمد حسین صاحب کو بلا کر فرمایا کہ آپ حافظ صاحب کی پیدا کردہ ترغیب کو آگے بڑھاتے ہوئے اخراجات کی طرف متوجہ کریں۔ان شاء اﷲ آپ دونوں کی یہ محنت اور خطابتی بہار نتیجہ خیز ثابت ہو گی۔چنانچہ دونوں مقررینِ باصفا نے مولانا سلفی کی اس تجویز،بلکہ ایما پر بخوبی عمل کیا اور عام معمول سے ذرا ہٹ کر خطابتی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا گیا،جس کے اثرات یہ ہوئے کہ نہ صرف عوام الناس نے دل کھول کر چندہ دیا،بلکہ عورتوں کے پنڈال سے رومال بھر کر زیورات بھیجے گئے۔یہ تھے ہمارے نامور و معتبر اور جذبۂ دین و خلوص سے سرشار اسلاف کہ جن کی ایک آواز اور اپیل پر ایسی مقناطیسی کشش پائی جاتی تھی کہ بڑے بڑے عقدے اور مسئلے ایک آن میں حل ہو جایا کرتے تھے،مگر اب بقولِ اقبال ع
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
٭٭٭
|