Maktaba Wahhabi

167 - 315
سرگرداں رہتا ہے اور اپنی اس پسندیدہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے اپنی دولت اور پیسے خرچ کرتا ہے۔ یہ تو عورت کے لیے بہت عزت کی بات ہے کہ وہ مرد کی مرغوب و پسندیدہ چیزہے۔ عورت کے لیے ذلت کی بات یہ ہے کہ مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ کرے۔ بعض ملکوں مثلاً ہندوستان و پاکستان وغیرہ میں مرد نہیں بلکہ عورت اپنے شوہر کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتی ہے۔ جہیز کے نام پر مرد منہ مانگی قیمت وصول کرتا ہے۔ عورت مرد کو حاصل کرنے کے لیے پیسے خرچ کرے یہ چیز اس کے لیے باعث رسوائی و ذلت ہے۔ (2) مہر کی ادائیگی محض اظہار الفت و محبت کے لیے ہوتی ہے۔ یہ عورت کے جسم کی قیمت اور معاوضہ نہیں ہے۔ اس کی حیثیت تحفہ(Gift)کی ہے جو مرد اپنی خوشی سے اپنی جان عزیز کو عطا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اللہ فرماتا ہے: "وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ " (النساء:4) ’’اور عورتوں کو ان کے مہر بہ طور عطیہ کرو۔‘‘ اس آیت میں مہر کو عطیہ اور تحفہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (3)مہر فرض کر کے ہمیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ شادی بیاہ کوئی کھیل نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ انسان اپنے روزمرہ کے کاموں میں بہت ساری کارروائیوں کے لیے فیس ادا کرتا ہے تاکہ اسے ان کارروائیوں کی اہمیت کا احساس رہے۔ اسی طرح شادی بیاہ ایک اہم اور سنجیدہ کارروائی ہے جس میں فیس کی ادائیگی لازمی ہے تاکہ اس کی اہمیت کا پاس و لحاظ رہے۔ (4)چونکہ فیملی کی سطح پر اللہ تعالیٰ نے شوہر کو گھر کا نگہبان اور ذمہ دار مقرر کیا ہے اور بیوی پر اسے ایک درجہ فضیلت عطا کی ہے اس لیے مرد کے لیے ضروری قراردیا گیا کہ گھر کے نان و نفقہ کا ذمے دار بھی وہی ہو اور اپنی دولت کا ایک حصہ مہر کے طور پر اپنی بیوی کو عطا کرے کیونکہ اس شادی کی وجہ سے بیوی پر اسے فضیلت عطا کی گئی ہے۔
Flag Counter