آپ سے گزارش ہے کہ آپ ہمیں حدیث کے صحیح اور معتبر ہونے کے رونما اصول اور ضوابط سے آگاہ کریں اور اس بات سے بھی کہ کسی حدیث کو قبول یا رد کرنے میں ہم اپنی عقل اور سمجھ کو کہاں تک استعمال کر سکتے ہیں؟ جواب:۔ نہایت خوش آئند بات ہے کہ ہماری نوجوان نسل اپنی مجلسوں میں دینی مسائل پر گفتگو کرتی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دین اور مذہب ہی اس کا ئنات کا سب سے اہم موضوع ہے۔ اس لیے کہ اس پر ہماری اخروی اور لافانی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہمارے جوان اور بوڑھے سب ہی دین کی اہمیت سے غافل نہ ہوں۔ جب کبھی جمع ہوں تو دنیوی مسائل کے ساتھ ساتھ دینی امور پر بھی گفتگو کیا کریں۔ دینی مسائل پر گفتگو کرنا کوئی علمائے کرام کی جاگیر نہیں ہے بلکہ ہر مسلم پر فرض ہے کہ دین کے بارے میں اسے جتنا کچھ معلوم ہے اسے دوسروں کو بھی بتائے۔ تاہم یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ ہر شخص علمی باریکیوں کا ادراک نہیں کر سکتا اس لیے ضروری ہے کہ اہم اور دقیق علمی مسائل سے آگاہی کے لیے علاوہ مشائخ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اللہ کا فرمان ہے: "فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ" (الانبیاء :7) ’’ پس علم والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو۔ ‘‘ آپ نے جس اہم موضوع کے بارے میں سوال کیا ہے وہ یہ ہے کہ حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا معیار کیا ہے؟ اس کی سند یا اس کا متن یا دونوں چیزیں؟ یہ ایک خالص علمی موضوع ہے اور اس سلسلے میں تشفی بخش جواب صرف وہی عالم دین دے سکتا ہے جسے علم حدیث پر کامل دسترس حاصل ہو۔ یہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس موضوع کے تحت جید علمائے حدیث نے جو کچھ اب تک لکھا ہے اس کا خلاصہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ علمائے حدیث نے صحیح حدیث کی مکمل اور جامع تعریف یوں کی ہے |