Maktaba Wahhabi

19 - 315
ما اتصل سنده برواية عدل تام انضبط من اول السند الي منتهاه وسلم من الشذوذ والعلة ’’صحیح حدیث وہ ہے جس کی سند شروع سے آخر تک متصل ہو، ایسے راوی کی روایت سے جو عادل ہواور جس کی یادواشت مکمل ہو اور حدیث شذوذ اور سقم سے پاک ہو۔‘‘ عادل کا مفہوم یہ ہے کہ راوی نیک اور پرہیز گار شخص ہو جو اپنے اقوال و افعال میں اللہ سے ڈرتا ہو، جسے آخرت کا خوف ہو، جھوٹ اور فریب سے پاک ہو، گناہ کبیرہ کا ارتکاب اور گناہ صغیرہ پر اصرار نہ کرتا ہو۔ سند راویوں کی اس کڑی یا اس سلسلے کو کہتے ہیں کہ جو آخری راوی سے شروع ہوکر اس صحابی تک پہنچتی ہے جنھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا عمل بیان کیا ہے۔ سند کے متصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ راویوں کی کڑی شروع سے آخر تک ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہو۔ اس سلسلے کی کوئی کڑی درمیان سے غائب نہ ہو۔ حدیث کا شذوذ سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث کسی زیادہ معتبر راوی کی روایت سے مختلف نہ ہو۔ اور سقم حدیث کی سند یا اس کے متن کی اس باطنی کمزوری کو کہتے ہیں جسے صرف باریک بین عالم حدیث کی نظر ہی تلاش کر سکتی ہے۔ صحیح اور ضعیف حدیث کے درمیان تمیز کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز پر نظر کی جاتی ہے وہ حدیث کی سند ہے۔ چنانچہ حدیث کے صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ حدیث کی سند متصل ہو اور اس سند کے تمام راوی عادل ہوں۔ اس لیے ان میں سے فرداًفرداً ہر ایک راوی کی مکمل شخصیت سے واقفیت ضروری ہے۔ کسی صحابی کے عادل ہونے کے لیے اس کا صحابی ہونا کافی ہے۔ کیوں کہ قرآن و حدیث کے مطابق تمام صحابہ کرام عادل ہیں۔ سند کی کڑی میں کسی ایک راوی کا ضعیف ہونا پوری حدیث کو ضعیف بنا دیتا ہے خواہ اس کے علاوہ باقی روایت کرنے والے مکمل عادل ہوں۔ خواہ یہ راوی اپنے اخلاق و کردار کی وجہ سے ضعیف ہو یا یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے۔ اگر
Flag Counter