Maktaba Wahhabi

20 - 315
حدیث کی سند متصل نہ ہو اور راویوں کی کڑی میں سے کسی ایک راوی کا نام غائب ہو تو ایسی حدیث ضعیف قراردی جاتی ہے۔ عام طور پر علمائے حدیث کا یہ مسلک رہا ہے کہ صحیح اور ضعیف حدیث میں تمیز کی خاطر انھوں نے حدیث کے متن (مضمون کے مقابلے میں سند )پر زیادہ توجہ دی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انھوں نے متن کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جیسا کہ بعض حضرات سمجھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علمائے حدیث نے محض حدیث کے متن اور مضمون کے ناقابل قبول ہونے کی وجہ سے بے شمار حدیثوں کو ضعیف اور موضوع قراردیا ہے متن اور مضمون کی بنیاد پر کسی حدیث کو ضعیف قراردینے کی درج ذیل صورتیں ہو سکتی ہیں۔ 1۔ حدیث کا مضمون بیہودہ اور لایعنی باتوں پر مشتمل ہو۔ مثلاًیہ حدیث کہ ’’بینگن ہر بیماری کا علاج ہے‘‘ یا یہ حدیث کہ ’’دال کی قدوسیت سترنبیوں کی زبان پر ہے‘‘ ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس طرح کی لایعنی اور لغو باتیں نہیں نکل سکتیں۔ 2۔ حدیث صریح عقل کے خلاف ہواور اس میں کسی ایسی بات کا تذکرہ ہو جسے عقل سلیم قبول کرنے سے انکار کرے۔ 3۔ حدیث میں کوئی ایسی بات ہو جو قرآن اور دوسری صحیح احادیث سے ثابت شدہ اصول کے خلاف ہو۔ 4۔ حدیث میں کسی ایسی بات کا ذکر ہو جو تجربہ کے ذریعے ثابت اور مسلم حقیقت کے خلاف ہو۔ 5۔ حدیث کسی ثابت شدہ تاریخی حقیقت سے مختلف ہو۔ علامہ ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کسی نے خوب کہا ہے کہ جب تم کسی حدیث کو عقل سلیم یا قرآن وسنت کی اصولی باتوں کے خلاف پاؤ تو جان لو کہ یہ حدیث من
Flag Counter