Maktaba Wahhabi

217 - 315
کی تعلیم دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر دین دار لوگوں کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ان کی باتوں میں نرمی کی بجائے سختی ہوتی ہے، چہرے پر درشتی ہوتی ہے، گفتگومیں لڑنے بھڑنے والا انداز ہوتا ہے اور معاملات میں بڑا روکھا پن ہوتاہے۔ اپنے اس طرز عمل کے حق میں یہ لوگ درج ذیل دلیلیں پیش کرتے ہیں: 1۔ حدیث نبوی ہے: "ولا تكثر الضحك فإن كثرة الضحك تميت القلب" ’’بہت کثرت سے نہ ہنسا کرو کیونکہ کثرت سے ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔‘‘ 2۔ ایک دوسری حدیث ہے: "وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ القَوْمَ فَيَكْذِب، وَيْلٌُ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ" ’’تباہی ہے اس کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے باتیں کرے اور باتوں میں جھوٹ بولے۔ تباہی ہے اس کے لیے، تباہی ہے اس کے لیے۔‘‘ 3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں روایت ہےکہ: " كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَواصِلَ الأَحْزَانِ " ’’یعنی آپ پر ہمیشہ حزن وغم کی کیفیت رہتی تھی۔‘‘ 4۔ قرآن کی یہ آیت: "لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ" (القصص:76) ’’نہ اترایا کر،کیونکہ اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔‘‘ جہاں تک اسلام کے سلسلے میں میرا مطالعہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ اسلام جیسا عمدہ اور بہترین مذہب ایسے طرز عمل کی تعلیم نہیں دے سکتا جیسا کہ اوپر بیان کرچکا ہوں۔ بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ اسلام کی طرف اس طرح کی باتیں منسوب کرنا اس کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ امید ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں آپ اس مسئلہ کی وضاحت کریں گے۔ جواب:۔ ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں جانور نہیں ہنستے ہیں۔ کیونکہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ہنسی کی بات سمجھ میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھداری جانوروں میں نہیں ہوتی ہے۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ
Flag Counter