Maktaba Wahhabi

223 - 315
تھے۔ 3۔ جہاں تک قرآن کی آیت"لا تَفْرَحْ....."الخ کا تعلق ہے تو اس میں لفظ فرح سے مراد ہنسنا نہیں ہے بلکہ گھمنڈ کرنا اور اترانا ہے۔ یہ مفہوم تمام مفسرین نے بیان کیا ہے۔ غرض کہ قرآن وحدیث میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے، جس سے ہنسنے ہنسانے اور مذاق کرنے کی ممانعت ثابت ہو۔ بلکہ اس کے برعکس مذاق کرنا اور ہنسنا ہنسانا ایک جائز کام ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عملی نمونوں سے واضح ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کی مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے میں ہنسنے ہنسانے والی کیفیت بڑا رول ادا کرتی ہے۔ اسی لیے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے: "إن القلوب تمل كما تمل الأبدان فابتغوا لها طرائف الحكمة" ’’جس طرح جسم اکتاجاتے ہیں اسی طرح دل بھی اکتاتے ہیں۔ اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے حکمت سے پُر لطیفے تلاش کیا کرو۔‘‘ اور یہ بھی فرماتے تھے: "روحوا القلوب ساعة بعد ساعة فإن القلب إذا أكره عمي" ’’دل کو تھوڑی تھوڑی دیر میں آرام اور تفریح دیاکرو۔ کیونکہ دل میں اگر کراہیت آگئی تو دل اندھے ہوجائیں گے۔‘‘ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کھیل تماشے کے ذریعے اپنے آپ کو طاقت فراہم کرتا ہوں تاکہ حق کے کام کے لیے میں چست اور پھرتیلا رہوں۔ ہنسی مذاق جائز ہے لیکن حد کے اندر کیونکہ کسی بھی چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے۔ ہنسی مذاق کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال کرناضروری ہے: 1۔ پہلی بات یہ ہے کہ جھوٹی باتیں گھڑ کر لوگوں کو ہنسانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جیسا کہ بعض لوگ یکم اپریل کے دن کرتے ہیں۔ حدیث ہے کہ ’’تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔‘‘ ایک دوسری حدیث ہے کہ
Flag Counter