Maktaba Wahhabi

226 - 315
(3)کھیل کے دوران گالم گلوچ نہ ہو۔ میں نے بعض حضرات کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ اپنے فتووں میں کافی نرمی اور سہولت کا پہلو اختیار کرتے ہیں۔ آپ میں چیزوں کو حلال اور جائز قرار دینے کا رجحان زیادہ ہے۔ ان کے مطابق آپ دینی معاملات میں کافی بے پروائی اور سہل پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے قول کے مطابق شطرنج ایک حرام کھیل ہے جسے آپ نے جائز قراردیا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں تسلی بخش وضاحت مطلوب ہے۔ مجھے بھی اس کھیل میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے۔ ہم خالی وقتوں میں خوش گپیاں اور عیب جوئی کرنے کی بجائے اس کے ذریعے تفریح حاصل کر لیتے ہیں۔ کیا ہمارا یہ موقف صحیح ہے؟ جواب:۔ کچھ دنوں پہلے بحرین کی ایک فقہی کانفرنس میں میرے کسی دینی بھائی نے مجھ پر اسی قسم کی تہمت لگائی تھی کہ میں اپنے فتووں میں کافی سہولت پسندی اور نرمی کی طرف مائل ہوں اور یہ کہ میں چیزوں کو ناجائز قراردینے سے زیادہ انھیں جائز قراردینے میں دلچسپی رکھتا ہوں مجھے یادہے کہ میں نے اسی کانفرنس میں اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ مجھ پر سہل پسندی کا الزام لگاتے ہیں ایسا ہی الزام میں ان پر بھی لگا سکتا ہوں کہ وہ اپنے فتووں میں تشدد اور سختی کی طرف مائل ہیں۔ انھیں چیزوں کو جائز اور حلال قراردینے سے زیادہ حرام اور ناجائز قراردینے میں دلچسپی ہے۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یہ ہے کہ دینی احکام میں آسانیاں فراہم کی جائیں اور سختیوں سے پرہیز کیا جائے۔ ملاحظہ کریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حدیثیں : "يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا" (بخاری مسلم) ’’آسانیاں پیدا کرو مشکلیں اور سختیاں نہیں اور ایسی باتیں بتاؤ جن سے دل میں اسلام کے لیے رغبت پیدا ہو۔ ایسی باتیں نہ بتاؤ جن سے اسلام سے دوری اور تنفر پیدا ہو۔‘‘ "إنما بعثتم ميسرين ولم تبعثوا معسرين" (بخاری، ترمذی)
Flag Counter