Maktaba Wahhabi

34 - 315
ہے۔ اس راہ میں وہ اپنامال بھی خرچ کررہی ہے، حالانکہ وہ دنیاکی بخیل ترین قوم ہے۔ وہ اپنی جانیں بھی قربان کررہی ہے، جب کہ انھیں اپنی جان بہت عزیز ہے۔ وہ انتہائی سنجیدگی اور مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اس نے اپنی جنگ کی بنیاد اپنی مذہبی کتاب توریت وتلمود پررکھی ہے۔ اور اس کی تمام تر جدوجہد اپنے مذہب کی سربلندی کےلیے ہے۔ اس کے برعکس ہم مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ یہودیوں کے ساتھ اس معرکہ آرائی میں اسلام کا کوئی نام ونشان نہیں ہے۔ ہمارے اربابِ اقتدار اس جنگ کو قومیت اور زمین کی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں، جس میں دین ومذہب کاکوئی عمل دخل نہ ہو۔ یہودی تو اس جنگ کو یہودیت کی بنیاد پر لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں اسلام کا نام لیتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ وہ یہودیت کی بنیاد پر ساری دنیا سے ہجرت کرکے اسرائیل میں اکٹھا ہورہے ہیں اور ہم ایک جگہ اکٹھا ہونے کے باجود اسلام کے نام پر متحد نہیں ہورہے ہیں وہ اس جنگ کو موسیٰ کے نام پر لڑرہے ہیں اور ہم اس جنگ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے ہوئے بھی شرماتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ اس جنگ میں یہودیوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے رویے اور طرز جنگ کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں بھی اس انداز میں مذہب کی بنیاد پر جنگ لڑنی ہوگی جس طرح وہ ہمارے ساتھ جنگ لڑرہے ہیں۔ یہ حدیث جو ہمیں یہودیوں پر فتح کی بشارت سناتی ہے، یہ بھی بتاتی ہے کہ وہ کون خوش نصیب مسلمان ہوں گے جنھیں یہ فتح حاصل ہوگی۔ ان کے اوصاف کیا ہوں گے اور وہ کس طرز کی جنگ لڑیں گے۔ یہ اوصاف حدیث کے الفاظ میں یوں ہیں عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ اور مسلم وہ اللہ کے بندے ہوں گے، مال و دولت اور جاہ وکرسی کے نہیں۔ وہ مسلم ہوں گے یعنی اس جنگ کو اسلام کی بنیاد پر لڑیں گے۔ عربیت اور وطنیت کی بنیاد پر نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پیڑ اور پتھرکابولنا کیا واقعی حقیقی انداز میں ہوگا یا محض زبان حال
Flag Counter