Maktaba Wahhabi

66 - 315
اختلاف فقہی مسائل اور شرعی احکام میں ہے مثلاً حنفیوں اور شافعیوں کے درمیان یا حنفیوں اور سلفیوں کے درمیان تو یہ اختلاف ہرگز ایسا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہمارے درمیان اتحاد واتفاق کا جذبہ ختم ہوکر دشمنیاں اور دوریاں پیدا ہوجائیں اور ہر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر اترآئیں۔ بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان مسلکی اختلافات سے صرف نظر کرتے ہوئے اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مل جل کر مشترکہ قومی وملی مفادات کے لیے کام کریں۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ قرآن وحدیث کی وہ دلیلیں جن کی وجہ سے مسلک کا اختلاف ہوتا ہے دو طرح کی ہوتی ہیں: 1۔ پہلی قسم ان دلیلوں کی ہے جنھیں اصطلاحی زبان میں قطعی کہا جاتا ہے یعنی وہ دلیلیں جن کامفہوم بالکل واضح اوراٹل ہوتا ہے مثلاً وہ قرآنی آیات یااحادیث جن میں نماز یا زکوٰۃ یا رمضان کے روزوں کاحکم ہے یا توحید وآخرت کی تعلیم ہے۔ ان آیات یا احادیث کامفہوم بالکل واضح اور اس کے صحیح ہونے میں کسی قسم کے شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ کی تمام جماعتیں ان قطعی دلیلوں کو تسلیم کرتی ہیں اور کسی کو بھی ان سے اختلاف نہیں ہوتا ہے۔ 2۔ دوسری قسم ان دلیلوں کی ہے، جنھیں اصطلاح میں ظنی کہتے ہیں۔ یعنی وہ قرآنی آیات یا احادیث جن میں ایک سے زائد مفہوم کا احتمال ہوتا ہے۔ چونکہ ان کا مفہوم بالکل اٹل اور قطعی نہیں ہوتا بلکہ ان میں کافی گنجائش ہوتی ہے۔ اس لیے فقہاء کرام اپنی اپنی سمجھ کے لحاظ سے ان کا مفہوم متعین کرتے ہیں اور یوں مسلک کااختلاف وجود میں آتا ہے۔ مثلاً بعض قرآنی آیات یا احادیث میں کسی بات کا حکم ہوتا ہے لیکن اس حکم کا صیغہ ایسا ہوتا ہے کہ اس سے واجب اورفرض ہونے کا بھی مفہوم نکلتا ہے اور محض سنت یا نفل ہونے کا بھی۔ مثلاً یہ حدیث شریف: "أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وأَعفوا اللِّحَى" ’’ مونچھیں ترشواؤ اورداڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘ اس حدیث میں مونچھیں ترشوانے اور داڑھی بڑھانے کا حکم ہے۔ بعض فقہاء نے
Flag Counter