Maktaba Wahhabi

87 - 315
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مطلع صاف ہویا ابر آلود اگرشعبان کی انتیس تاریخ کو کسی نے بھی چاند نہ دیکھا تو ایسی صورت میں شعبان کے تیس دن مکمل کرکے رمضان کا آغاز ہوگا۔ ایسی صورت میں ضروری ہے کہ ہم شعبان کی ابتدا اور اس کی تاریخوں کا بھی حساب رکھیں کیونکہ جب تک ہمیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ آج شعبان کی 28 تاریخ ہے یاستائیس، اس وقت تک 29 یا تیس تاریخ کا تعین کیسے ہوسکتاہے۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ امت مسلمہ کےذمے دار حضرات تمام قمری مہینوں کے حساب وکتاب کا اہتمام کریں کیونکہ ہر مہینہ دوسرے مہینے سے جڑا ہوا ہے۔ چاند کے اثبات کا تیسرا طریقہ حدیث میں یوں بیان ہوا ہے"فَاقْدُرُوا لَهُ"احناف اورجمہور علماء وفقہاء اس جملہ کامفہوم یوں بیان کرتے ہیں کہ مطلع ابرآلود ہونے کی صورت میں چاند کو تیس دن کا تصور کرلیاجائے گا اور شعبان کے تیس دن مکمل ہونے کے بعد رمضان کی شروعات ہوگی۔ لیکن امام ابوالعباس بن سریج جو ایک زبردست شافعی فقیہ وعالم ہیں، اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: " فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ " ’’ شعبان کے پورے تیس دن مکمل کرلو۔‘‘ اس حکم کے مخاطب عوام الناس ہیں جب کہ "فَاقْدُرُوا لَهُ" کےمخاطب کچھ خاص لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فلکیات کے اعداد وشمار کا علم رکھتے ہیں اور ان اعدادوشمار کی بنا پر وہ چاندکے طلوع ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کچھ یقینی بات کہہ سکتے ہیں۔ ورنہ ایک عام آدمی جسے فلکیات کا علم نہیں ہے چاند کے طلوع ہونے کا اندازہ کیسے لگا سکتا ہے ۔ گویا "فَاقْدُرُوا لَهُ" کا مفہوم ان کے نزدیک یہ ہے کہ اعداد وشمار اور حساب کے ذریعے چاند کے طلوع ہونے کا اندازہ اور تخمینہ لگاؤ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور حنبلی مسلک کے علماء کہتے ہیں کہ اعداد وشمار اور حساب کے ذریعے چاند کے طلوع ہونے کااندازہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ" (بخاری، مسلم) ’’ہم ایسی اُمت ہیں جو ناخواندہ ہیں نہ لکھنا جانتے ہیں اور نہ حساب لگانا
Flag Counter