Maktaba Wahhabi

98 - 315
جنت کے پتے ڈالنے لگے۔ آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔‘‘ مذکورہ آیت میں نافرمانی اور اور گمراہی کی نسبت واضح طور پر آدم علیہ السلام کی طرف کی گئی ہے۔ (3) قرآن نے واضح طور پر صراحت کر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو کس غرض و غایت کے تحت پیدا کیا ہے ۔ اور اس غرض وغایت کی وضاحت آدم کی تخلیق سے قبل ہی کر دی گئی تھی۔ اللہ فرماتا ہے: "وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ " (البقرۃ:30) ’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے قرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ تخلیق کرنے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا کہ اب اے رب! تو زمین پر ایسی مخلوق بنا رہے ہے جو فساد پھیلائے گی اور خون بہائے گی۔ ہم تو تیری حمد و تسبیح کرتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔‘‘ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے درمیان عالم بالا میں ملاقات ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام نے گفتگو کے دوران نسل انسانی کی بد بختی اور اس کے جنت سے محروم ہوجانے کی ذمہ داری حضرت آدم علیہ السلام پر ڈالنی چاہی تو حضرت آدم علیہ السلام نے قطع کلام کرتے ہوئے انھیں سمجھایا کہ یہ سب کچھ میری غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری تخلیق سے قبل ہی سب کچھ طے کر دیا تھا۔ اور تمہیں تورات میں یہ سب کچھ لکھا ہوا ملے گا۔ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے
Flag Counter