Maktaba Wahhabi

99 - 315
اس معصیت کا ذمہ دار حضرت آدم علیہ السلام کو قراردینا چاہا حضرت حوا کو نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ تورات میں اس معصیت کاحضرت حوا کی طرف منسوب ہونا اس کے تحریف شدہ ہونے کی واضح دلیل ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا ممنوعہ درخت کا پھل کھانا اور اس کی پاداش میں انھیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا جانا ۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل ہی طے کر رکھا تھا۔ اس لیے تقدیر کے مطابق ان باتوں کا وقوع پذیر ہونا طے شدہ تھا۔ (4)وہ جنت جس میں حضرت آدم علیہ السلام تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے اور جس کے درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے زمین پر بھیج دئیے گئے تھے کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ وہی جنت ہو جو آخرت میں نیک اور صالح بندوں کے لیے بناگئی ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس جنت میں حضرت آدم علیہ السلام تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے وہ اسی زمین کی کوئی جنت ہے اور جنت سے مراد خوبصورت باغ اور سر سبز و شاداب علاقہ ہے کیوں کہ عربی زبان میں جنت خوبصورت باغ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں متعدد مقامات پر لفظ جنت کو اسی زمینی باغ کے معنی میں استعمال کیا ہے ملاحظہ سورہ قلم کی یہ آیت "إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ ِ" (القلم :17) ’’ ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔‘‘ "وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا" (الکہف:32) ’’ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دئیے اور ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی ۔ دونوں باغ خوب پھلے پھولے
Flag Counter