Maktaba Wahhabi

71 - 105
آئمہ اربعہ رحمہم اللہ نے حکم دیا؟یا سلف ِ صالحین رحمہم اللہ نے اس پر عمل کیا؟ کوئی ثبوت نہیں۔کیا وہ سب لوگ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ رکھتے تھے؟انھیں ثواب کی طلب نہ تھی؟ وہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والہ وشیدا تھے،مگر اس’’عید نمبر ۳‘‘ کو مسنون وماثور اور اس اندازِ محبّت کو ثواب نہ سمجھتے تھے۔عہدِ ماضی سے لے کر آج تک تمام علماء اس کی تردید کرتے چلے آئے ہیں۔ ایک حنفی عالم حافظ ابوبکر نے لکھا ہے: (اِِنَّ عَمَلَ الْمَوْلُوْدِلَمْ یُنْقَلْ عَنِ الْسَّلَفِ وَلَاخَیْرَفِیْمَالَمْ یَعْمَلِ السَّلَفُ)(فتاویٰ حافظ بغدادی) ’’یہ مولود کے امور سلف ِ صالحین سے منقول نہیں اور جو عمل اسلاف سے ثابت نہ ہو،اس میں کوئی بھلائی اور ثواب نہیں ہوتا۔‘‘ فقۂ حنفی کی ہی ایک اور کتاب میں میلادِمروّجہ کے بارے میں لکھا ہے۔ ((لَایُنْعَقَدُ لِاَ نَّہ‘ مُحْدَثٌ وَکُلُّ مُحْدَثَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّار،))(تحفۃ القضاۃ) ’’عیدِ میلاد کا انعقاد نہ کیا جائے کیونکہ یہ مُحْدث وبدعت ہے۔جبکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام نار ِ جہنّم ہے۔‘‘ ایسے ہی ذخیرۃ السالکین میں مرقوم ہے: (چیزے کہ نامِ آں مولود(مولد)می نامند بدعت است) ’’ جن امور کو مولود(مولد)کا نام دیا جاتا ہے،وہ بدعت ہیں۔‘‘ اِسی طرح رسالہ تاج الدین فاکہانی میں وہ لکھتے ہیں: ’’یہ بدعت ہے جسے باطل پرستوں اور پُرخوروں نے شہوت ِ نفس کے لیے ایجاد کر رکھا ہے۔‘‘ اسی طرح ہی تحفہ اثنا عشریہ میں بھی اس کی تردید کی گئی،اور لکھاہے: ’’کسی پیغمبر کی پیدائش کے دن عید منانا جائز نہیں۔‘‘
Flag Counter