Maktaba Wahhabi

147 - 358
کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ کسی حدیث کے مفہوم میں تردد ہو تو احادیثِ باب کو جمع کیے بغیر اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کی جائے۔‘‘[1] اس اقتباس کو پڑھ کر یقین ہوجاتا ہے کہ غامدی صاحب کی شخصیت گرگٹ کی طرح ہے، جو رنگ بدلتی رہتی ہے اور موصوف حالات و ضرورت کے تحت بھیس بدلتے رہتے ہیں۔ اس کی وجہ فکر و نظر میں پختگی کی کمی ہی نہیں، بلکہ ابن الوقتی اور اسلام کے روئے آبدار کو مسخ کرنا ہے۔ یہ مقصد جس طرح بھی حاصل ہو، اس کے لیے اس طریقے کے اختیار کرنے میں انھیں کوئی تأمل نہیں ہوتا اور جو بھی ہتھکنڈا انھیں اپنانا پڑے، اس کے لیے وہ تیار رہتے ہیں۔ انھیں اپنے یا ان کے ’’امام‘‘ کے خود ساختہ نظریۂ رجم کے اثبات میں رجم کی صحیح، متواتر اور متفق علیہ روایات حائل نظر آئیں تو ان کو باہم متناقض باور کراکے یا قرآن کے خلاف قرار دے کر رد کر دیا۔ اب اس تازہ اقتباس میں انھوں نے اس کے بالکل برعکس رویہ اختیار کیا ہے، یہاں وہ تلقین فرما رہے ہیں کہ ایک مسئلے سے متعلقہ تمام احادیث کو دیکھنا چاہیے، اس سے ان کا ظاہری تعارض بھی دور ہوجاتا ہے اور مسئلے کے سارے پہلو بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی یہ بات درست ہے اور یہ وہی موقف ہے، جو احادیث کی تشریعی حیثیت کے قائلین کا ہے۔ اگر یہی موقف احادیثِ رجم میں بھی اختیار کر لیا جاتا تو ان کا ظاہری تناقض بھی دور ہوجاتا اور رجم کے حدِ شرعی ہونے کا پہلو بھی نمایاں ہو کر سامنے آجاتا، لیکن وہاں چونکہ ان کی ضرورت کچھ اور تھی، اس لیے وہاں جمع و تطبیق کی یہ صورت جو علما و محدثین بیان کرتے اور
Flag Counter