Maktaba Wahhabi

160 - 358
کہ وہ اس کا ایک من مانا مفہوم مراد لیتے ہیں اور اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتے، جو اُمت کا متفقہ مسلک ہے تو پھر ان حضرات کا حجیتِ حدیث کے تسلیم کرنے کا دعویٰ کیوںکر صحیح ہو سکتا ہے، جو حجیتِ حدیث کا ایک خود ساختہ مفہوم مراد لیتے ہیں اور وہ مفہوم مراد نہیں لیتے جو اس کا حقیقی مفہوم ہے اور جسے پوری اُمت کے علما و فقہا تسلیم کرتے آئے ہیں۔ قرآن فہمی کے اصول میں اس بنیادی اختلاف کی وجہ سے ان حضرات نے آیاتِ زیر بحث کا مفہوم حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً بے نیاز ہو کر محض اپنے زورِ فہم سے متعین کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انھوں نے تمام مسلّمات ہی کا انکار کر دیا ہے۔ علاوہ ازیں ان حضرات کا موقف بھی ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیں، ایک دوسرے کے متضاد ہے۔ گویا ایک متفقہ موقف سے انحراف کر کے انھوں نے کوئی ایک واضح موقف پیش کرنے کے بجائے اختلاف و انتشار کا ایک نیا دروازہ کھول دیا ہے اور یہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے انحراف کا وہ لازمی و منطقی نتیجہ ہے، جو بہر صورت نکلتا ہے اور ہمیشہ نکلے گا۔ اپنی اس بات کو اب میں چند مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا، تاکہ میرا نقطۂ نظر نمایاں ہوسکے۔ آیت {وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ} [النساء: ۱۵] میں فاحشہ سے کیا مراد ہے؟ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک تمام مفسرین، محدثین، علما و فقہا نے کہا ہے کہ یہاں اس سے مراد بے حیائی کی وہ قبیح ترین صورت ہے، جسے زنا کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کی وضاحت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی اُس صحیح حدیث میں آگئی ہے، جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آیتِ مذکورہ میں جس
Flag Counter