Maktaba Wahhabi

207 - 358
کی ضرورت کیوں پیش آئی، جیسا کہ موصوف نے کیا ہے؟ کیا ایک مسلمان کے لیے کسی ادنیٰ سے درجے میں بھی اس کا کوئی جواز ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، خلفائے راشدین کے فیصلوں اور شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا کو بہ لطائف الحیل ختم کرنے کی مذموم سعی کرے۔ یہ مذموم سعی ہی وہ غامدیت ہے، جس کا اظہار انھوں نے اگلے نمبروں میں کیا ہے۔ اس غامدی وکالت نے ان میں اس سے انحراف کی جراَت پیدا کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’2۔ قرآن میں زانی کے لیے صرف سو کوڑے کی سزا ذکر کی گئی ہے، جب کہ سنت سے اس پر رجم کی سزا کا اضافہ ثابت ہے۔ ان دونوں بظاہر متعارض حکموں کے مابین تطبیق و توفیق یا علمی و فقہی درجہ بندی کے لیے چودہ صدیوں میں مختلف علمی توجیہات پیش کی گئی ہیں، جن میں سے زمانی لحاظ سے آخری توجیہ مولانا اصلاحی اور بعض دیگر معاصر اہلِ علم نے پیش کی ہے۔ ان کی رائے کے مطابق رجم کی سزا اصلاً زنا کی نہیں، بلکہ فساد فی الارض اور محاربہ کی سزا ہے اور اسے زنا کے عادی مجرموں یا اوباشوں پر نافذ کیا جانا چاہیے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔‘‘ اس پیرے یا نمبر ۲ نکتے سے بڑی فنکارانہ چابکدستی یا نہایت معصومیت سے پہلے پیرے کی مکمل نفی کر دی گئی ہے۔ ذرا سوچیے! رجم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، خلفائے راشدین کے فیصلے بھی اس کے مطابق ہیں اور یہ شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا بھی ہے۔ کیا یہ سزا پھر بھی قرآن کے متعارض ہی ہے؟ اس کا مطلب تو پھر یہ ہوا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سزا قرآنی حکم کے
Flag Counter