Maktaba Wahhabi

112 - 402
بھی ان کے ہمراہ گیا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عشا کی نماز کے بعد بھرپور جلسہ تھا،جس کی صدارت فاتح قادیان،سردارِ اہلِ حدیث حضرت مولانا ثناء اﷲ امرتسری رحمہ اللہ فرما رہے تھے اور تقریر دل پذیر اس وقت کے نامی گرامی شیریں کلام واعظ مولانا محمد عبداﷲ ثانی فرما رہے تھے۔سامعین میں ہندو اور سکھ بھی نظر آ رہے تھے۔وہ دور ایسا تھا کہ کسی جلسے کی کامیابی کے لیے مولانا ثانی اور مولانا صمصام کی تشریف آوری ضروی سمجھی جاتی تھی۔دونوں کو اﷲ تعالیٰ نے لحنِ داودی عطا فرمایا تھا۔آزادی کے بعد بھی سالہا سال تک مولانا محمد عبداﷲ ثانی جڑانوالہ غلہ منڈی میں خطیب رہے اور کچھ عرصہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ناظمِ تعلیمات بھی رہے۔مولانا صمصام ستیانہ بنگلہ ضلع فیصل آباد میں رہایش پذیر ہو گئے۔فیصل آباد کی مختلف مساجد اور لاہور چھاؤنی کی جامع مسجد اہلِ حدیث میں خطبہ دیتے رہے۔دونوں حضرات اس دوران میں جماعتی کانفرنسوں کی زینت رہے۔ سو حضرت حافظ محمد اسماعیل ذبیح کا ذکرِ خیر ہو رہا تھا،جو توانا جسم،خوب صورت رنگ و روپ اور مضبوط اعصاب کے باوجود رقیق القلب عالمِ دین تھے۔مارچ 1958ء میں جو پہلی عظیم الشان مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی سالانہ کانفرنس سرگودھا میں منعقد ہوئی تھی،اس کے صدر گرامی منزلت حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی تھے اور صدرِ استقبالیہ مولانا ثناء اﷲ علیہ الرحمہ کے پوتے مولانا ضیاء اﷲ ثنائی تھے۔کانفرنس کے پہلے روز نمازِ جمعہ کے بعد ابتدائی اجلاس میں مولانا غزنوی جب خطبۂ صدارت،جو شائع شدہ تھا،پڑھ رہے تھے تو اس میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کا تذکرہ آتے ہی مولانا غزنوی کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔روتے روتے ان کی ہچکی سی بندھ گئی۔پورا اجتماع بھی غم ناک ہو گیا اور سامعین پر ایک سناٹا چھا گیا،تمام ماحول سوگوار ہو گیا۔
Flag Counter