Maktaba Wahhabi

116 - 402
اور میاں فضل حق مرحومین شامل تھے۔مظفر آباد آزاد کشمیر کے سالانہ جلسہ،زیرِ سرپرستی مولانا محمد یونس اثری،سے واپسی پر خان مہدی زمان خان کے گاؤں کھلا بٹ میں ان کی دعوت پر رات کا قیام تھا۔ان کی لمبی چوڑی رہایش گاہ کے ایک بڑے ہال میں رات کو خوب مجلس رہی۔ خان صاحب نے مولانا صمصام سے فرمایش کی کہ وہ نظم سنائیں جس میں ’’صمصام نمانا‘‘ آخری مصرع آتا ہے۔انھوں نے کہا کہ میں نے یہ نظم امرتسر میں حضرت مولانا ثناء اﷲ رحمہ اللہ کی صدارت میں منعقدہ جلسے میں مولانا صمصام سے سنی تھی،جسے بہت پسند کیا گیا تھا اور مولانا ثناء اﷲ ہر مصرعے پر تحسین فرماتے اور اسے دوبارہ،سہ بارہ پڑھنے کے لیے کہتے چلے جا رہے تھے،چنانچہ مولانا صمصام نے اپنے مخصوص انداز میں نظم سنانا شروع کر دی،جس کے چند مصرعے مجھے بھی ازبر ہیں ع مخلوق خدا دی اِک پاسے محبوب ربانا اِک پاسے سارے جگ دی دھرتی اِک پاسے میرا عرب سہانا اِک پاسے والضحیٰ دیاں چمکاں اِک پاسے چہرے دیاں دمکاں اِک پاسے پتھراں دا پھٹنا اِک پاسے چند پھاڑ دکھانا اِک پاسے اِک کشتی دا ضامن اِک پاسے سارے جگ دا مہانا اِک پاسے ربِ نفسی آوازہ اِک پاسے ربِ امتی تقاضا اِک پاسے سارے جگ دے پاپی اِک پاسے صمصام نمانا اِک پاسے تقسیمِ ملک سے قبل پنجاب کے دیہی علاقوں میں جب رات کو بوڑھے اور جوان چوکوں اور تھڑوں پر بیٹھتے تو ان کی محفلوں میں ہیر رانجھا،سوہنی مہینوال وغیرہ کے
Flag Counter