Maktaba Wahhabi

120 - 402
موتی رولتے چلے جائیں،سننے والوں میں کوئی اکتاہٹ یا وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔جماعت کے جلیل القدر علما کو ان سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔جس محفل میں وہ تشریف فرما ہوتے،فیوض و برکات کا سماں اور علمی بہار چھائی رہتی۔ برسوں پہلے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث میں پیدا شدہ خلفشار کو ختم کرنے کے لیے انھیں جمعیت کی امارت کے لیے مجبور کر دیا گیا،چنانچہ ان کا دورِ امارت پرسکون اور بابرکت رہا۔جماعتی تنظیم اور مسلکی دعوت و تبلیغ میں اضافہ ہوا۔راولپنڈی میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی سالانہ عظیم الشان کانفرنس 1968ء میں انہی کی صدارت میں منعقد ہوئی،اس مبارک موقع پر انھوں نے کثیر علما و صلحا کی موجودگی میں مرکزی جامع مسجد اہلِ حدیث اسلام آباد کا اپنے دستِ مبارک سے سنگِ بنیاد رکھا۔مسجد کی تعمیر کے بعد روزِ اول سے وہاں ہمارے فاضل دوست مولانا عبدالعزیز حنیف خطابت اور درس و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ حضرت حافظ صاحب نے گوجرانوالہ جامعہ اسلامیہ میں اپنی تعلیمی و تدریسی مصروفیات کے باوجود جماعتی امارت کی بھاری ذمے داریوں کو خوب نبھایا۔جماعت کے بہت سے منصوبوں اور پروگراموں کی تکمیل و ترقی کے سلسلے میں مرکزی کابینہ کے فعال ارکان حضرت مولانا معین الدین لکھوی،الحاج میاں فضل حق،مولانا محمد صدیق فیصل آبادی،مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح،مولانا حافظ عبدالحق صدیقی،مولانا حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری اور خطیبِ ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر جیسے اکابر کی معاونت و مشاورت انھیں ہمہ وقت حاصل رہی۔ حضرت حافظ صاحب کے زہد و تقوے کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ محکمہ اوقاف پنجاب کی طرف سے بلائے گئے اجلاس میں وہ شریک ہوئے۔دیگر مکاتبِ فکر کے
Flag Counter