Maktaba Wahhabi

123 - 402
علامہ صاحب سیالکوٹ کے اس مردم خیز خطے سے تعلق رکھتے تھے،جس نے علامہ اقبال،علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی،علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور امیر محترم ساجد میر جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں پیدا کیں۔ علامہ شہید کی کون سی عظمت کا ذکر کیا جائے،وہ تو ہمہ اوصاف قسم کے ایک غیر معمولی انسان تھے۔علما میں ایک ثقہ عالمِ دین،خطیبوں میں بلند پایہ خطیب،ادیبوں میں نامور ادیب،سیاست دانوں میں ایک منجھے ہوئے سیاستدان،قائدین اور راہنماؤں میں ایک مدبر قائد و مفکر جیسی گوناگوں صفات سے پہچانے جاتے تھے۔ملک کا کون سا چھوٹا بڑا شہر ہے جو ان کی شعلہ نوا خطابت سے نہ گونج گیا ہو،بلکہ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے بیشتر ملکوں میں ان کی خطابت کے ڈنکے بجتے رہے۔ تحریکِ جمہوریت ہو کہ تحریکِ ختمِ نبوت،تحریکِ نظامِ مصطفی ہو یا قومی یکجہتی اور اتحادِ ملی کی کوئی تحریک،علامہ ان سب کے روحِ رواں ہی نہیں،ہراول دستے کے طور پر متحرک دیکھے جاتے۔وہ اپنے رفقا و احباب کے دل و جان سے ہمدرد اور سچے خیر خواہ نظر آتے۔طلبائے دین اور نوخیز و نوجوان علما کی دلجوئی و حوصلہ افزائی ایک مشفق استاذ کی طرح کرتے۔اﷲ تعالیٰ نے انھیں متناسب قد و قامت کے ساتھ جسمانی صحت و توانائی اور بڑے رعب و دبدبے سے نوازا تھا۔عام و خاص مجالس ہوں یا عظیم اجتماعات،ان کی شخصیت اور گفتگو و کلام کا بانکپن انتہائی دلربا ہوتا۔حق گوئی و بے باکی ان کا طرۂ امتیاز تھا،گویا وہ اس شعر کے آئینہ و عکس تھے ع ہر حال میں حق بات کا اظہار کریں گے منبر نہیں ہو گا تو سرِ دار کریں گے مایوسی یا افسردگی علامہ صاحب کی لغت میں تھی ہی نہیں۔کسی معاملے میں
Flag Counter