Maktaba Wahhabi

124 - 402
جب وہ عزم کر لیتے تو کٹھن راہوں یا قید و بند کی صعوبتوں کی ہر گز پروا نہ کرتے۔فقیہِ مصلحت بیں کو وہ کسی طرح خاطر میں نہ لاتے۔ساتھیوں کو اور علم و فضل سے بہرہ ور لوگوں کو ہمیشہ خود داری و عزیمت کی نصیحتیں کرتے۔صاحبِ ثروت اور امرا کی عزت کرتے،مگر علما و فقرا پر انھیں کبھی ترجیح نہ دیتے۔ علامہ صاحب سے میرا تعارف ان کے دورِ طالب علمی سے تھا۔جامعہ سلفیہ میں جب وہ آئے تو یہ تعارف دوستی میں بدل گیا۔جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب انھوں نے چینیاں والی مسجد کی خطابت اور ’’اہلِ حدیث‘‘ کی ادارت کی ذمے داریاں سنبھالیں تو اُن سے روابط بڑھتے چلے گئے،جن میں مودت و رافت یہاں تک ہو گئی کہ فیصل آباد،جھنگ،خانیوال اور ملتان تک کے علاقوں میں ان کے تبلیغی و جماعتی سفروں میں میری رفاقت ضروری ہوتی۔جماعتی اختلافات کے دور میں بھی ان تعلقات میں کوئی فرق نہ آنے پایا۔یہی وجہ ہے کہ ان اختلافات کے سلسلے کی بات چیت اور مصالحتی کمیٹیوں میں میاں فضل حق گروپ کی طرف سے میری شرکت لازمی سمجھی جاتی۔ شدید اختلافات کے انہی دنوں 1979ء میں وہ رابطۂ عالم اسلامی کی طرف سے حج پر تھے،مجھے بھی یہ سعادت حاصل تھی۔مکہ معظمہ میں رابطہ کے اجلاسوں میں علامہ صاحب مجھے ہمراہ لے جاتے۔ائمہ کعبۃ اﷲ اور بعض علمی شخصیات سے خصوصی ملاقاتوں میں بھی اُن کے ہمراہ ہی رہا۔ 1980ء میں جنرل ضیاء الحق نے ملک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عربی ڈپلومہ کلاسز کے احکامات جاری کیے تو زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر ہمارے دوست ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ یونیورسٹی میں عربی کورس کے اجرا اور
Flag Counter