Maktaba Wahhabi

131 - 402
شرکت اور مشاورت ضروری و لازمی سمجھی جاتی۔ملکی سیاسیات میں نواب زادہ نصر اﷲ خان جیسے گھاگ سیاست دان ان کی سیاسی بصیرت کے قائل ہوتے۔آغا شورش کاشمیری جیسے شعلہ نوا مقرر اور ادیب علامہ صاحب کی دل پذیر تقریر و تحریر کے معترف رہتے۔بڑے بڑے اجتماعات اور عظیم کانفرنسوں پر چھا جانا اور مذاکرات و مباحثوں کے موقعوں پر اپنی بات کو منوا لینا ان کا طرۂ امتیاز تھا،گویا کہ ع مستند ہے میرا فرمایا ہوا سارے عالَم پر ہوں میں چھایا ہوا نہ صرف پاکستان،بلکہ عرب و عجم میں ان کی تصانیف و تقاریر کا شہرہ تھا۔الغرض علامہ جیسی ہمہ اوصاف شخصیات اب کہاں ؟ بس یہ معروف شعر ان پر صادق آتا ہے ع ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا بارگاہِ رب العزت میں کیوں نہ کہیں ع یارب وہ ہستیاں کس دیس بستیاں ہیں جن کو دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں مولانا حبیب الرحمان یزدانی توحیدِ باری تعالیٰ کے بیان اور شانِ رسالتِ مآب میں رطب اللسان خطیب تھے۔شرک و بدعات کی تردید کے میدان میں کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیتے۔کامونکے میں مولانا سید عبدالغنی شاہ علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد مولانا یزدانی ان کے صحیح جانشین ثابت ہوئے،جنھوں نے قرآن و سنت کی صاف و شفاف روشنی سے نہ صرف اضلاعِ گوجرانوالہ،گجرات اور شیخوپورہ کو منور کر دیا،
Flag Counter