Maktaba Wahhabi

132 - 402
بلکہ مسلک اہلِ حدیث کی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ملک بھر کے جماعتی اجتماعات اور جلسہ ہائے عام کی وہ رونق تھے۔ اپنی اجلی صورت و سیرت کے ساتھ وہ جب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوتے تو مجمع پر ایک بہار آ جاتی۔جب وہ اپنی روح پرور تقریر کو قرآنِ عزیز کی مسحور کن تلاوت اور اردو و پنجابی اشعار سے مزین کرتے تو شرک کی ظلمتیں اور تاریکیاں چھٹ جاتیں اور ماحول توحیدِ باری تعالیٰ کے نور سے جگمگا جاتا۔فیصل آباد یا مضافات میں جہاں کہیں ان کا پروگرام ہوتا،ان کا معمول تھا کہ نمازِ عصر کے وقت جامعہ رحمانیہ متصل مندر گلی تشریف لے آتے اور میل ملاقات کے بعد آگے روانہ ہوتے۔اَن گنت جماعتی مجلسوں اور تبلیغی جلسوں میں مرحوم کے ساتھ رفاقت کیسے بھلائی جا سکتی ہے؟ مولانا یزدانی کے زیادہ تر پروگرام علامہ شہید کے ہمراہ رہتے اور پھر یہ ہمراہی تادمِ واپسیں انھیں حاصل رہی۔ مولانا عبدالخالق قدوسی ایک منجھے ہوئے عالمِ دین تھے،علمی گہرائی اور وسعتِ مطالعہ ہی نہیں،عمل و کردار کے اعتبار سے بھی وہ سلف صالحین کی تصویر تھے۔طبیعت میں سادگی مگر علمی وقار و وجاہت کا وہ عمدہ نمونہ تھے۔ان سطور کے راقم کے وہ خصوصی دوست اور جامعہ سلفیہ میں تعلیم کے دوران میں ہم سبق تھے۔مولانا قدوسی طالب علمی کے زمانے ہی سے کفر و الحاد پر مبنی لٹریچر اور اسلام کش کتب و تصانیف سے بیزار رہتے تھے۔چنانچہ فارغ التحصیل ہونے پر انھوں نے اس گمراہی سے نپٹنے اور راہِ ہدایت کو اجاگر کرنے کے لیے دینی کتب کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور لاہور میں مکتبہ قدوسیہ کی داغ بیل ڈالی۔اس دور میں تصنیف و تالیف کی ایک بہت بڑی ضرورت کو انھوں نے پورا کیا،آج یہ اشاعتی ادارہ بحمداﷲ ان کے لائق فرزندوں
Flag Counter